اسلام آباد : وزیراعظم عمران خان نے اورسیز پاکستانیوں کو واپس لانے کا حکم دے دیا۔ انہوں نے کہا کہ بیرون ملک پھنسے طبقے کو اب واپس آنے دینگے، واپسی پران کا ایک ٹیسٹ کریں گے، مثبت ٹیسٹ آنے پر ان کوگھروں میں قرنطینہ کردیا جائےگا۔ انہوں نے قومی رابطہ کمیٹی کے اجلاس کے بعد اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں جب 26 کیسز تھے تو لاک ڈاؤن کیا۔ ہم نے ڈاکٹرز سے رائے لی کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ میں بہت کلیئر تھا کہ پاکستان کو کون سا راستہ اختیارکرنا چاہیے۔ کیونکہ ہمارے حالات نہ چین کی طرح ہیں نہ یورپ کی طرح ہیں۔ کراچی میں 30 سے35 فیصد لوگ کچی آبادی میں رہتے ہیں ان پرلاک ڈاون کا کیا اثرہونا تھا۔ اڑھائی کروڑ افراد ڈیلی ویجرزاور ہفتہ وار کمانے والے تھے۔
چین میں وہان میں مکمل لاک ڈاؤن کیا گیا تھا۔ پانچ کروڑ لوگ ہمارے ملک میں دووقت کا کھانا نہیں کھا سکتے۔ لاک ڈاؤن کا مقصد یہ ہے کہ وائرس جب تیزی سے پھیلتی ہے تو وائرس کا پھیلاؤ کا کم ہوجاتا ہے، لیکن یہ وائرس کو ختم کرنے کا علاج نہیں ہے، لاک ڈاؤن اس لیے کیا جاتا ہے کہ ہسپتالو ں پردباؤ نہ بڑھے۔ امریکا، اٹلی، جرمنی ، یورپ میں ہسپتالوں پر اتنا پریشر پڑ گیا کہ سنبھالنا مشکل تھا۔ اسی لیے لاک ڈاؤن کیا جاتا ہے کہ ہسپتالوں اور ڈاکٹروں پر دباؤ نہ بڑھے، لیکن دوسری طرف دیہاڑی دار طبقہ ہے، ایک طرف لوگ امیر ہیں، جو پوش علاقوں میں رہتے ہیں، اسی طرح وہ لوگ جو کچی آبادیوں میں رہتے ہیں، ان پر کیا اثر پڑے گا؟ اس کو بھی دیکھنا ہے۔ بطور وزیر اعظم مجھے ایک طرف وائرس کو روکنا تھا، دوسری طرف لوگوں کی بھوک کودیکھنا تھا، میں اس طرح لاک ڈاؤن نہیں چاہتا تھا، بدقسمتی سے جیسا لاک ڈاون ہوا،اس کی وجہ سے نچلے طبقے کو بڑی تکلیف ہوئی۔ لیکن ہوگیا کیوں کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبے بااختیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مجھے شروع دن سے عوام اجتماعات روک دیتا لیکن کاروبار بند نہ کرتا۔ کورونا کو سمجھنا ہوگا کہ کورونا وائرس اب جانے نہیں لگی، ہمیں اس کے ساتھ ہی گزارا کرنا ہوگا، کیونکہ جب تک ویکسین نہیں آتی یہ نہیں جائے گی۔ امریکا میں ایک لاکھ لوگ مر گئے انہوں نے بھی فیصلہ کیا کہ لاک ڈاؤن نہیں کرسکتے کیونکہ لاک ڈاؤن سے ان کی معیشت بیٹھ جائے گی، انہوں نے امدادی پیکج دیا، ہم نے بھی 8 ارب ڈالر کا پیکج دیا۔سنگاپور،
جنوبی کوریا میں وائرس پھر پھیل گئی ہے ۔ میں لوگوں کو آگاہ کرتا ہوں کہ وائرس پھیلے گی، اس نے پھیلنا ہے، ہمیں احتیاط کرنی ہے، عوام کو احتیاط کرنی ہوگی، اگر ہم نے لاک ڈاؤن کے بعد احتیاط نہ کی اور وائرس پھیلا تو ہمارا نقصان ہوگا۔ اس لیے ہم جو ایس اوپیز دے رہے ہیں۔ اس پر عمل کرنا ہوگا۔ اب ہمیں ٹورازم کو بھی کھولنا ہے۔ کیونکہ وہ علاقے جن میں لوگوں کا سیاحت کے شعبے سے روزگار کا وابستہ ہے، ان کے پاس یہی دو تین مہینے ہے۔ گلگت اور خیبرپختونخواہ میں ایس اوپیز کے تحت سیاحت کا شعبہ کھول دیں گے۔ اب چند شعبوں کے علاوہ باقی سب کھول دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ لوگوں کو چاہیے کہ احتیاط کریں، اگر احتیاط کریں گے تو وائرس کے پھیلاؤ میں تیزی اور شدت نہیں آئے گی، بلکہ یہ آہستہ آہستہ پھیلے گا اور پیک کے بعد نیچے آنا شروع ہوجائے گا۔ شوگر، بلڈ پریشر کے مریضوں اور بزرگوں کا خاص خیال رکھنا ہوگا۔ بھارت کی مثال سامنے ہے ہندوستان میں لاک ڈاؤن سے غربت پھیل گئی ہے۔ اس لیے اگرلاک ڈاؤن بڑھایا توغربت بڑھے گی۔ 25فیصد لوگ ملک میں غربت کی لکیر سے نیچے ہیں۔ ہمارے حالات ایسے نہیں کہ لوگوں کومزید پیسے دیتے رہیں۔ انہو ں نے کہا کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہماری معیشت متاثر ہوئی۔ ہماری ٹیکس کلیکشن 30 فیصد کم ہوئی، ایکسپورٹ گرگئی، ہماری ترسیلات زر کم ہوگئی ہے۔ بین الاقوامی سرمایہ کاری رک گئی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ڈاکٹرز ایسوسی ایشنزسے بھی ملاقات کروں گا۔ پہلے دن سے ہیلتھ ورکرز اور ڈاکٹرزکی فکر تھی۔ ہمیں پتا ہےکہ ہیلتھ ورکرز اور ڈاکٹر زپر دباؤ ہے۔ آج اٹلی کے وزیراعظم سے بات ہوئی، انھوں نے بتایا کہ طبی عملے پرکتنا بوجھ پڑا۔ ہم سب کو احساس ہے، ہمیشہ سوچتے ہیں کہ ڈاکٹرز اور نرسز کی کیسے مدد کریں۔ ہسپتالوں میں 50 فیصد سے زیادہ وینٹی لیٹرز دستیاب ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی مزدور دبئی، سعودی عرب، یورپ اور دیگر ممالک میں پھنسے ہوئے ہیں۔ بیرون ممالک میں پھنسے پاکستانیوں کوواپس لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اورسیز پاکستانیوں کو فوری واپس لانا چاہتے ہیں، رکاوٹ یہ تھی کہ جو بھی کیسز آئے وہ باہر سے آئے ہیں، اس لیے صوبوں نے کہا کہ ہم اتنے زیادہ لوگوں کو نہیں لا سکتے جب تک انتظامات نہ کرلیں۔ ہمارا مزدورطبقہ بیرون ملک میں پھنسا ہوا ہے۔ فیصلہ کیا ہےکہ مزدوروں کو آنے دینگے۔ واپسی پر ان کا ایک ٹیسٹ کریں گے، جن کا ٹیسٹ مثبت آئے گا ان کو گھروں میں قرنطینہ کردیا جائے گا۔