لاہور: سینئر تجزیہ کار راؤف کلاسرا نے کہا ہے کہ وزیرخزانہ پنجا ب ہاشم بخت نے اپنی ہی ملز کو 45 کروڑ کی سبسڈی دی، وفاقی حکومت کی بجائے پنجاب سے سبسڈی کی رقم جاری کرنے کا فیصلہ کیسے ہوا؟ اسد عمر کو بتانا چاہیے کہ کن لوگوں نے سبسڈی نہ دینے پر وزارت سے ہٹوا دیا۔ انہوں نے چینی اورآٹے بحران کی رپورٹ پر اپنے تبصرے میں کہا کہ وفاقی سطح پر سبسڈی دینے کا فیصلہ ای سی سی کے اجلاس میں کیا جاتا ہے، ای سی سی کے بغیر سبسڈی نہیں دی جاسکتی۔
فیصلہ کیا گیا کہ وفاق سبسڈی نہیں دے رہا، لیکن اگر صوبے سبسڈی دینا چاہتے ہیں تو اپنی اپنی ملز کو دے دیں۔اس فیصلے کو بنیاد بنا کر سبسڈی کا معاملہ پنجاب کے کھاتے میں ڈال دیا گیا۔ پنجاب کا وزیرخزانہ ، وفاقی وزیر خسروبختیار کا بھائی ہے۔
وزیراعلیٰ پنجاب کو عمران خان کی صدارت میں ای سی سی کے اجلاس کا فیصلہ ملا، جس پر ہاشم بخت نے سبسڈی دینے کا آغاز کیا۔ اڑھائی ارب کی سبسڈی کی رقم میں تین لوگوں نے آپس میں بانٹا۔ جہانگیرترین نے 56 کروڑ روپے لیے، لیہ کے شمیم نے 40 کروڑ روپے لیے۔ خسروبختیار کے رشتے دار شہریار کو 45 کروڑ روپے دئے گئے۔یعنی ہاشم بخت نے اپنی ہی ملز کو سبسڈی دی۔ نوازلیگ کے سابق ایم پی اے 14کروڑ لے اڑے۔ اصل میں یہ سارا فیصلہ کابینہ کا ہے، کیونکہ اگر اس پر فیصلہ کیا گیا کہ کاروائی کی جائے تو پھر وفاقی حکومت کو اپنے خلاف خود کاروائی کرنا پڑے گی۔ ہاں وزیراعظم کاروائی صرف چینی کی قیمتوں میں اضافے پر کرسکتے ہیں کہ قیمتیں کیوں بڑھائی گئیں۔یہ موقع پر ہے کہ اسد عمر کو اب بتانا چاہیے کہ جب وہ سبسڈی نہیں دے رہے تھے تو ان کو کیسے ہٹایا گیا، اور حفیظ شیخ کو لایا گیا۔ ان کو بتانا چاہیے کہ کون کونسے لوگ سبسڈی مانگ رہے تھے۔ ان کی یہ بھی بتانا چاہیے کہ کس طرح وفاقی حکومت کی بجائے پنجاب حکومت سے سبسڈی دلوائی گئی۔