کراچی(ویب ڈیسک) کورونا وائرس کے لیے قائم سندھ حکومت نے فنڈ کے لئے سرکاری ملازمین و افسران کے تنخواہوں سے کٹوتی کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔ نوٹیفیکیشن کے مطابق گریڈ ایک سے گریڈ 16 تک کے ملازمین کی تنخواہ سے 5 فیصد کٹوتی ہوگی، گریڈ 17 سے گریڈ 20 تک کے افسران کی تنخواہ سے 10 فیصد کٹوتی ہوگی ۔ گریڈ 21 کے 25 فیصد، گریڈ 22 کے افسران کی تنخواہوں سے 100 فیصد کٹوتی ہوگی۔ واضح رہے کہ ایمرجنسی فنڈ اکاؤنٹ سندھ بینک آئی آئی چندریگر روڈ برانچ میں کھولا گیا ہے۔دوسری جانب ایک خبر کے مطابق چند روز قبل وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کو ماہرین اور حکام کی طرف سے کورونا وائرس پر ایک تفصیلی بریفنگ دی گئی اور اس کا مقصد یہ تھا کہ انہیں مکمل معلومات فراہم کی جائیں
تاکہ سب سے بڑے صوبے کا وزیراعلیٰ بروقت درست فیصلے لے سکے لیکن بریفنگ کے اختتام پر وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے استفسار کیا کہ ” یہ کورونا کاٹتا کیسے ہے؟“۔ایک انگریزی جریدے ڈان میں فہد حسین نے لکھا کہ پنجاب کے معاملات پر صوبے کے سربراہ کے اس سوال سے بڑی مثال نہیں ہوسکتی ، وزیراعلیٰ کے اس سوال اور کورونا کی سنگینی کے درمیان موجود خلا کا آپ اندازہ کرسکتے ہیں، رواں سال جنوری میں ہی دنیا نے چین کی صورتحال پر فکر کرنا شروع کردی تھی ، فروری سے ایران بھی کرائسز کی زد میں آگیا اور چھبیس فروری کو پاکستان میں پہلا مریض سامنے آگیا تھا جبکہ پاکستانی قیادت کی قومی سطح کی پہلی میٹنگ وزیراعظم کی زیرصدارت 13مارچ کو ہوئی ،اس سے پہلے ہم سوئے رہے ، آج بھی ہم کیوں کھڑے ہوئے ؟ اب آفت سرپر آگئی ہے تاہم ابھی کچھ معاملات معمول کا بزنس ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کی میٹنگ کے بعد حکومتی مشینری حرکت میں آئی ، مثال کے طورپر وفاقی حکومت کو یہ احساس ہوا کہ تین نہایت اہم چیزیں پاکستان کو درکار ہیں جن میں وینٹی لیٹرز، ڈائگناسٹک ٹیسٹنگ کٹ اورطبی عملے کے لیے پرسنل پروٹیکشن کٹس وغیرہ شامل ہیں، اب چونکہ تاخیر ہوچکی ہے لیکن پھر بھی حکام ان چیزوں کی موجودگی یقینی بنانے کے لیے بھرپور کاوش میں ہیں، اس کے لیے وہ چیزیں اور پیسہ دونوںدستیاب ہونا ضروری ہیں، اب دلچسپ صورتحال یہ بن چکی ہے کہ ہمارے پاس کچھ پیسہ توموجود ہے لیکن وہ چیزیں دستیاب نہیں، ان تمام چیزوں کیلئے 325ملین ڈالر درکار ہیں اور بعض اطلاعات کے مطابق پاکستان کے پاس تقریباً31ملین روپے موجود ہیں،