Monday November 25, 2024

پاکستانی میڈیا کا مستقبل چینی اور سعودی میڈیا جیسا۔ آنے والے دنوں میں میڈیا ہاؤسز کے ساتھ کیا ہونے والا ہے؟ میر شکیل الرحمان کی گرفتاری کے بعد بڑے بڑے اینکرز کو اپنی پڑ گئی

لاہور (نیوز ڈیسک )احتساب عدالت نے جیو اور جنگ کے مالک میر شکیل الرحمان کو 11 روزہ جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے کر دیاہے اور ان کی گرفتاری پر تقریبا تمام سینئر صحافیوں کی جانب سے مذمت کی گئی ہے اور پیغامات جاری کرنے کا سلسلہ بھی چل نکلا ہے ۔تفصیلات کے مطابق میر شکیل الرحمان کی گرفتاری پر صحافی برادری کافی برہم دکھائی دے رہی ہے جس کا اظہار وہ سوشل میڈیا پر کرتے دکھائی دیتے ہیں ، اسی امر کو سامنے رکھتے ہوئے ایک ٹویٹر صارف ”قاسم فراز احمد “ نے سینئر صحافی روف کلاسرا سے سوال کیا کہ ”تو آپ سمجھتے ہیں کہ میر شکیل الرحمان کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے ؟

اور آگے آپ میڈیا کا مستقبل پاکستان میں کیا دیکھتے ہیں ؟“۔ٹویٹر صارف کا یہ سوال روف کلاسر ا کے دل کو لگا اور انہوں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ”میڈیا کا پاکستان میں اب وہی مستقبل ہے جو چین اور سعودی عرب میں ہے۔۔ وہی اب رول ماڈلز ہیں۔ سب میڈیا مالکان کو پیغام چلا گیا ہے میر شکیل کے انجام کو ذہن میں رکھو اور سب چپ رہو۔جو بولا اس پر سچا جھوٹا مقدمہ تیار۔اب پاکستانی عدالتوں پر ہے وہ میڈیا کی آزادی پر یقین رکھتے ہیں یا نہیں۔“ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ نیب لاہور نے ملزم شکیل الرحمن کو پانچ مارچ کو طلب کیا تھا اور انھیں اس ضمن میں ایک سوال نامہ بھی فراہم کیا گیا تھا۔جمعرات کو نیب کے حکام نے میر شکیل الرحمن کو طلب کیا اور دو گھنٹے تفتیش کے بعد انھیں گرفتار کرلیا گیا۔ نیب کے حکام کے مطابق ملزم کو جمعے کے روز لاہور کی احتساب عدالت میں پیش کرکے ان کا جسمانی ریمانڈ حاصل کرنے کی استدعا کی جائے گی۔قومی احتساب بیورو کی طرف سے جس مقدمے میں میر شکیل الرحمن کو گرفتار کیا گیا ہے اس کی تفصیلات بتاتے ہوئے ترجمان نے کہا ہے کہ سنہ 1986 میں لاہور کے علاقے جوہر ٹاون میں لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے 180 کنال اراضی پر استثنیٰ قرار دیتے ہوئے اسے ہدایت علی اور حاکم علی کے نام الاٹ کیا تھا جبکہ اس کی پاور آف اٹارنی میر شکیل الرحمن کے پاس تھی۔

نیب کی طرف سے جاری کیے بیان میں کہا گیا ہے کہ سنہ1986 میں اس وقت کے پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں نواز شریف نے استثنیٰ کے قواعد کو تبدیل کرتے ہوئے 55 کنال پانچ مرلےاراضی ہدایت علی اور حاکم علی کے نام کردی جس کی اٹارنی میر شکیل الرحمن کے پاس تھی۔اس بیان میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ کسی بھی سرکاری ہاوسنگ سکیم میں پلاٹوں کی الاٹمنٹ قرعہ اندازی کے ذریعے ہوتی ہے لیکن اس میں قرعہ اندازی نہیں کروائی گئی۔اس بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ میر شکیل الرحمن کو مختلف مقامات پر تین پلاٹ الاٹ کیے گئے جن میں 33 کنال کا پلاٹ کنال بینک روڈ پر،124 کنال کا پلاٹ سوک سیٹر کے پاس جبکہ 33کنال کا پلاٹ سوک سیٹر سے دور آلاٹ کیا گیا۔نیب کے حکام نے اپنے بیان میں مزید کہا ہے کہ اگر ان 55 پلاٹوں کی الاٹمنٹ میں قرعہ اندازی کروائی جاتی تو ہر ایک الاٹی کو ایک ایک کنال کا ایک پلاٹ مل جاتا۔

FOLLOW US