راولپنڈی (ویب ڈیسک )چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ترکی کے وزیر قومی دفاع نے ملاقات کی ہے جس میں باہمی دلچسپی کے امور پرتبادلہ خیال کیا گیا ۔آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ آرمی چیف اور ترک وزیر قومی دفاع کی ملاقات میں دونوں ملکوں کے درمیان دفاعی تعاون مزید بڑھانے پر گفتگو کی گئی۔اس موقع پر آرمی چیف نے کہاکہ پاکستان ترکی کے ساتھ تعلقات کو خصوصی اہمیت دیتاہے اور ترکی کے ساتھ ہمیشہ اپنے بھائی کی طرح کھڑا ہو گا ۔ جبکہ وسری جانب ایک خبر کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ طیب اردگان نے کشمیر اوراسلامی فوبیا کے خاتمے کو اولیں ترجیع قرار دے دیا اور انہوں نے یقین دہانی کروائی ہے کہ وہ اپنے ملک میں پہلا کام یہی کریں گے
جس پر میں کشمیریوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز اٹھانے پر ترک صدر کا شکر گزار ہوں، پاکستان ہر مسئلے میں ترکی کے ساتھ کھڑا ہے، ہم فلم کے شعبے میں ترکی کے ساتھ تعاون بڑھا رہے ہیں اور ایسا مواد تیار کرنا چاہتے ہیں جس سے مغرب میں اسلامو فوبیا کا مقابلہ کیا جاسکے۔پاکستان اور ترکی کے درمیان مفاہمت کی یاد داشتوں پر دستخط کی تقریب کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ ترک صدر نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے جو تقریر کی وہ پورے پاکستان کے عوام نے اسے بہت زیادہ پسند کیا، اگر یہ پاکستان میں الیکشن لڑیں تو جیت سکتے ہیں۔ خاص طور پر پاکستان کی قوم کی طرف سے ترک صدر کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ جس طرح انہوں نے کشمیریوں کے اوپر ہونے والے ظلم پر اپنی آواز بلند کی۔انہوں نے کہا کہ 6 مہینے سے زیادہ عرصے سے 80 لاکھ کشمیریوں کو محاصرے میں بند کیا گیا ہے جبکہ ان کے لیڈرز کو جیلوں میں ڈال دیا گیا ہے ، کشمیر متنازعہ علاقہ ہے جس کا کشمیر کے لوگوں نے فیصلہ کرنا تھا لیکن انڈیا نے اس کی خلاف ورزی کی اور انہیں محاصرے میں رکھا ہوا ہے۔وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان اور ترکی کے تجارتی تعلقات کا نیا دور شروع ہورہا ہے، اس سے دونوں ملکوں کو فائدہ ہوگا،انہیں بارڈر پر یا دہشتگردی کے جو بھی مسائل ہیں ہم ترکی کے ساتھ کھڑے ہیں،ترکی بھی ہمیشہ ہمارے ساتھ کھڑا ہوتا ہے، ترکی کو شام کے بارڈر پر مشکلات کا سامنا ہے جس میں اہم ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ ترک فلم انڈسٹری کافی وسعت اختیار کرچکی ہے اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ ان کے ساتھ مل کر ایسا مواد تیار کریں جس کے ذریعے اسلامو فوبیا کے خلاف آواز اٹھائی جاسکے۔