اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)پاکستان تحریک انصاف نے حال ہی میں اپنے اتحادیوں کومنانے کا جو مشن شروع کیا ہے‘تفصیلات کے مطابق معروف روزنامہ خبریں میں شائع امتنان شاہد کے تجزیہ کے مطابق پاکستان مسلم لیگ ق‘ ایم کیو ایم پاکستان دونوں نے کچھ روز قبل حکومتی وفد سے ملاقات کے دوران اپنے اپنے مسائل‘ تحفظات بیان کئے تھے ور حکومتی اور ق لیگ کے ذرائع کے مطابق بظاہر مسلم لیگ ق اور پی ٹی آئی کی حکومت کے مابین تعلقات اب معمول کے مطابق ہیں اور دونوں جماعتیں ایک پیج پر ہیں۔ اسی طرح ایم کیو ایم پاکستان اور حکومت کے درمیان معاملات تاحال ڈیڈلاک کا شکار ہیں۔
بظاہر تو یہ نظر آرہا ہے کہ مسلم لیگ ق اور ایم کیو ایم حکومت کو سپورٹ توکررہی ہیں لیکن حکومت کے ہر فیصلے میں ان کے ساتھ نہیں ہے۔ ق لیگ کے ایم این اے چوہدری مونس الٰہی کا ٹویٹ تو بتاتا ہے کہ دونوں جماعتوں کے مسائل چند روز پہلے ہونے والے مذاکرات کے دوران حل ہو گئے اور معاملات بھی طے پاگئے البتہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کے دو سے تین روز میں پاکستان آنے کے اعلان پر نا صرف پنجاب میں پی ٹی آئی کے اراکین پنجاب اسمبلی نئی اڑان کا اشارہ دے رہے ہیں بلکہ پاکستان مسلم لیگ ق کے چند اراکین بھی شہباز شریف کی واپسی کے منتظر ہیں۔ یعنی اگر یہ کہا جائے کہ فی الوقت ”طے پانے والے معاملات“ کا مقصد ن لیگ کے صدر شہباز شریف کی واپسی پر حکومتی صفوں میں اتحاد ظاہر کرنا ہے بلکہ ان اراکین پنجاب اسمبلی جوکہ خاص کر میاں شہباز شریف کی آمد کے منتظر ہیں‘ ان کو یہ باور کروانا ہے کہ دونوں جماعتیں پی ٹی آئی اور ق لیگ ایک دوسرے سے بغلگیر ہیں تاکہ ان ایم پی اے حضرات کی اڑان بھرنے سے قبل ہی ان کے
پروں کوباندھ دیا جائے۔ پی ٹی آئی کی چند خواتین ایم پی ایز کی ن لیگ کے سینئر رہنماؤں سے رابطے کی اطلاع پر بھی حکومت پنجاب اور پی ٹی آئی میں خاصی تشویش پائی جارہی ہے۔ پی ٹی آئی کی خواتین ایم پی ایز جو کہ خاتون کی سیٹوں پر پنجاب اسمبلی کی ممبر بنیں‘ کی ایک لسٹ تیار کی گئی ہے جو اپوزیشن بنچوں کے ساتھ مسلسل ناصرف رابطے میں رہیں بلکہ میٹنگز بھی کرتی رہی ہیں۔ اسی طرح ق لیگ کے ممبران پنجاب اسمبلی سے بھی چند ایک مسلسل ن لیگ کے چند سینئر رہنماؤں کے ساتھ رابطے میں ہیں تاکہ ممکنہ طور پرپنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت کا خاتمہ کرکے کوئی نیا سیٹ اپ لایا جائے۔ اسی کے ساتھ ایم کیو ایم پاکستان جو پچھلے کئی ہفتوں سے بار باراپنے تحفظات کا اظہار کرر ہے ہیں‘ آئندہ آنے والے ہفتے یا ڈیڑھ میں کوئی بڑا فیصلہ کرنے جارہی ہے جو سندھ میں پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کے ساتھ اشتراک کی صورت میں بھی ہوسکتا ہے اور یہ فیصلہ ایم کیو ایم پاکستان کی رابطہ کمیٹی میں اس وقت کیا گیا جب وزیراعظم عمران خان کراچی میں وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ سے ملے اور اس کے بعد کم و بیش تین سے چار بار پی ٹی آئی کے گورنر سندھ عمران اسماعیل اور پیپلز پارٹی کے مراد علی شاہ کی ملاقاتیں او ررابطے ہوئے جس کا مقصد بظاہر آئی جی سندھ کی تبدیلی تھا لیکن صرف یہ بات نہیں تھی۔ ایم کیو ایم نے اپنے اتحادی پی ٹی آئی کو جب پیپلز پارٹی کے ساتھ پینگیں بڑھاتے دیکھا تو ان کے تھنک ٹینکس نے یہ فیصلہ کیا کہ شاید اب وہ وقت آگیا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت کی حمایت کو خیرباد کہا جائے لہٰذا آئندہ ایک سے دو ہفتے میں ایم کیو ایم پاکستان پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی حمایت سے دستبردار رہو جائے اور پی پی کے ساتھ سندھ میں اگر شامل نہ ہو تو کم از کم ان کے ساتھ مذاکرات کرکے حیدرآباد اور کراچی کے بلدیاتی انتخابات اور مئیرز کو فنڈ ریلیز کروانے میں کامیاب ہو جائیں۔
یاد رہے کہ کراچی اور حیدرآباد دونوں میں ایم کیو ایم پاکستان کے حمایت یافتہ مئیر شامل ہیں۔ پنجاب اور سندھ میں ہونے والی اس سرگرمی کی ایک جھلک گزشتہ روز قومی اسمبلی کے سیشنز میں بھی نظر آئی جب حکومتی وزیر عمر ایوب خان کی تقریر کے دوران پیپلز پارٹی کے ایم این اے آغا رفیع اللہ کی جانب سے ان پر حملے کی کوشش ہوئی اور سیشن میں گرما گرمی اپنے عروج پر پہنچ گئی جوکہ کافی عرصے بعد نظر آئی۔ اس دوران غور طلب بات یہ بھی ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان اور ق لیگ کے اراکین جو کہ قومی اسمبلی کے سیشن میں موجود تھے وہ خاموش تماشائی بنے رہے۔