اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)پاکستان عوامی تحریک کے ترجمان مرکزی سیکرٹری اطلاعات نوراللہ صدیقی نے کہا ہے کہ چیف جسٹس معصوم بچی زینب کے والد حاجی امین انصاری کو ہراساں کرنے کا نوٹس لیا لیں۔ ہراساں کرنے والوں کے خلاف دہشتگردی کی دفعات کے تحت مقدمات درج کیے جائیں۔ ترجمان نے کہا کہ حاجی امین انصاری نے ہراساں کیے جانے پر
مجبور ہو کر چیف جسٹس ثاقب نثار سے تحفظ کی اپیل کی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ درندے عمران کے سہولت کاروں سے تفتیش کرنے کی بھی استدعا کی ہے۔ترجمان نے کہا کہ اگرچہ قاتل عمران کا سپیڈی ٹرائل اور سزا کا فیصلہ خوش آئند ہے تاہم اس سانحہ کے دیگر سہولت کاروں کا تاحال گرفت میں نہ آنا لمحہ فکریہ ہے۔ یہ شکوک و شبہات ابھی تک موجود ہیں کہ قاتل عمران تنہا نہیں تھا۔ حاجی امین انصاری نے پولیس کی تفتیش پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ ترجمان نے کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے زینب کے قاتل کی گرفتاری کو اپنی سیاسی پروجیکشن کیلئے ستعمال کیا جس کا ثبوت وہ پریس کانفرنس ہے جس میں حاجی امین کا مائیک وزیراعلی نے اپنے ہاتھوں سے بند کر کے حاجی امین کو صحافیوں سے مخاطب ہونے سے روکا۔ پنجاب پولیس نے زینب قتل کیس کی تفتیش میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے، عجلت میں کی گئی تفتیش سے لگ رہا ہے کہ کسی کو بچانے کی کوشش ہورہی ہے۔ ترجمان نے کہا کہ معصوم زینب کئی روز سے قاتل عمران کی تحویل میں رہی، اس نے اسے کہاں رکھا؟ کون لوگ اس کی سہولت کاری کرتے رہے۔ ان سوالات کے جوابات ملنے
چاہئیں اور سہولت کاروں کو شامل تفتیش نہ کرنے کا نتیجہ ہے کہ آج حاجی امین انصاری کو دھمکیاں دی جارہی ہیں اور انہیں تحفظ کیلئے چیف جسٹس سے رجوع کرنا پڑا۔ترجمان نے کہا کہ زینب کے قاتل کو سرعام پھانسی ملنی چاہیے اور بچیوں کے ساتھ بداخلاقی کے واقعات کی روک تھام اور مجرموں کو عبرتناک سزائیں دینے کیلئے خصوصی ٹاسک فورس قائم ہونی چاہیے۔