Thursday November 28, 2024

گزشتہ تین سال میں پنجاب کے صرف ایک شہر سے کتنے ہزار لڑکیاں غائب ہو گئیں اور کتنی کم سن لڑکیوں کی لاشیں ملیں ، چونکا دینے والے انکشافات

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)سپریم کورٹ نے کمسن بچی کی گمشدگی کے معاملے سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران غیر شناخت شدہ اور لاوارث لاشوں کیلئے مرکزی ڈیٹا بیس بنانے کا حکم دیدیاہے ۔ جمعرات کو سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے کمسن عاصمہ مجید کی گمشدگی سے متعلق کیس کی سماعت کی جو گزشتہ ایک سال سے ڈیرہ غازی خان سے لاپتہ ہے۔سماعت کے دوران ڈپٹی انسپکٹر جنرل ڈیرہ غازی خان سہیل خان نے عدالت کو بتایا کہ

3 سال میں صرف ڈی جی خان میں 14 سو سے زائد لڑکیوں کے لاپتہ ہونے کے واقعات سامنے آئے۔انہوں نے کہا کہ پنجاب کے 8 اضلاع سے 12کمسن لڑکیوں کی لاشیں ملی ہیں تاہم کسی بھی لاش سے عاصمہ مجید کا ڈی این اے میچ نہیں ہوا۔پولیس آفیسر کے مطابق عاصمہ کی معلومات کیلئے تشہیر کے جواب میں بچی کا پتہ تو نہ چل سکا تاہم دیگر کئی گمشدہ لڑکیوں کی معلومات مل رہی ہے۔انہوں نے کہاکہ پنجاب سے ملنے والی تمام لاشوں کا ڈی این اے کررہے ہیں دیگر صوبوں میں فورنزک کی سہولت نہ ہونے کے باعث وہاں سے ملنے والی لاشوں کا ڈی این اے نہیں ہوسکتا۔جس پر عدالت نے غیر شناخت شدہ اور لاوارث لاشوں کیلئے مرکزی ڈیٹا بیس بنانے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ غیر شناخت شدہ لاشوں کا ڈی این اے اور فوٹوگراف ایک سینٹر میں جمع کئے جائیں۔عدالت عظمیٰ نے حکم دیا کہ مذکورہ سینٹر کی معلومات تک تمام صوبوں کو رسائی دی جائے۔عدالت نے ریمارکس دیئے کہ غیر شناخت شدہ لاشوں کا ڈیٹا نہ ہونے کی وجہ سے معلومات میسر نہیں آتیں جبکہ اس کے باعث جرم بھی چھپ جاتا ہے۔سپریم کورٹ بینچ میں شامل جج جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس

دیئے کہ صرف وفاق اور پنجاب کے پاس ڈی این اے کی سہولت موجودہ ہے، انہوں نے کہا کہ لاشوں کا ڈیٹا بیس ہونے سے تمام صوبوں کو تحقیقات میں مدد ملے گی۔جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیئے کہ غیر شناخت شدہ اور لاوارث لاشوں کی معلومات کا تمام صوبوں سے تبادلہ ہونا چاہیے۔سپریم کورٹ نے کیس کی آئندہ سماعت 9 اپریل تک کے لیے ملتوی کردی۔

FOLLOW US