سابق وزیر اعظم نوازشریف کے خلاف فلیگ شپ اور العزیزیہ ریفرنسز کا فیصلہ
اسلام آباد(آئی این پی ) احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ اور العزیزیہ ریفرنسز پر ا خواجہ حارث کی ایک ہفتے کی مہلت دینے کی استدعا مسترد کر تے ہوئے فریقین وکلا کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلے محفوظ کرلیے،نیب ریفرنسز کے فیصلے 24 دسمبر کو سنائے جائیں گے، العزیزیہ ریفرنس میں استغاثہ کے 22 گواہان
نے بیانات قلمبند کروائے اور فلیگ شپ ریفرنس میں استغاثہ کے 16 گواہان نے بیانات قلمبند کروائے ، سابق وزیر اعظم کے وکیل خواجہ حارث نے جواب الجواب دلائل میں کہا کہ نواز شریف کی تنخواہ کا تعین صرف ملازمت کے کنٹریکٹ کی حد تک تھا، مقصد تنخواہ لینا نہیں تھا، نواز شریف کی صرف ملازمت ثابت ہو رہی ہے ملکیت نہیں۔ بدھ کو احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے سابق وزیراعظم کے خلاف ریفرنسز کی سماعت کی جس کے دوران فریقین کی جانب سے ریفرنسز کے قانونی نکات پر دلائل دیے گئے۔ سماعت کے دوران نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے عدالت میں نئی دستاویزات پیش کرتے ہوئے نیب ریفرنسز کے قانونی نکات پر حتمی دلائل مکمل کیے۔خواجہ حارث نے جواب الجواب دلائل دیتے ہوئے حسن نواز کی کمپنیوں سے متعلق نئی دستاویزات عدالت میں پیش کیں جو لینڈ رجسٹریشن ڈیپارٹمنٹ سے تصدیق شدہ ہیں۔خواجہ حارث نے دلائل کے دوران کہا کہ یہ کہتے ہیں جے آئی ٹی رپورٹ تفتیشی رپورٹ نہیں اور اس پر تو لکھا ہے یہ تفتیشی رپورٹ ہے جب کہ اس رپورٹ کا نام ہی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی تفتیشی رپورٹ ہے۔خواجہ حارث نے نواز شریف کی ملازمت اور تنخواہ سے متعلق عدالتی سوالات کے جواب بھی دیے اور کہا کہ نواز شریف کی یہ ملازمت صرف ویزا حاصل کرنے کے لیے تھی، وہ وہاں سے تنخواہ لے سکتے تھے مگر تنخواہ وصول نہیں کی۔خواجہ حارث نے دلیل دی کہ سپریم کورٹ نے کہا اگر وہ تنخواہ آپ نے نہیں بھی نکلوائی پھر بھی اثاثہ ہے جس پر میراموقف ہے کہ تنخواہ کا تعین صرف ملازمت کے کنٹریکٹ کی حد تک تھا اور وہ صرف کنٹریکٹ کی ضرورت پوری کرنے کے لیے تھا، مقصد تنخواہ لینا نہیں تھا۔خواجہ حارث نے کہا نواز شریف کا اس کمپنی میں عہدہ صرف رسمی تھا،کمپنیاں چلانے سے ان کا کوئی تعلق نہیں تھا۔جج ارشد ملک نے استفسار کیا تنخواہ سے متعلق آپ کا موقف درست مان لیں تو
اس کا کیس سے کیا تعلق بنتا ہے جس پر خواجہ حارث نے کہا تعلق یہ بنتا ہے کہ نواز شریف کی صرف ملازمت ثابت ہو رہی ہے ملکیت نہیں۔نواز شریف کے وکیل نے کہا جسٹس آصف سعید کھوسہ کے 20 اپریل والے فیصلے پر نظرثانی نا کرنے کا بھی جواب دیتا ہوں، اکثریتی فیصلہ ہی ہمیشہ اصل فیصلہ مانا جاتا ہے، 3 ججز نے جے آئی ٹی بنوائی تھی اور انہوں نے اپنا فیصلہ جے آئی ٹی رپورٹ دیکھ کر ہی دیا اور 28 جولائی کو ان 3 ججز کے فیصلے پر پانچوں ججوں نے دستخط کیے۔خواجہ حارث نے کہا 28 جولائی کے اسی 5 رکنی بینچ کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواست دی تھی۔سماعت ے دوران نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے مزید دستاویزات جمع کروانے کے لیے ایک ہفتے کی مہلت کی استدعا کی۔انہوں نے کہا کہ ایک دستاویز ابھی تک موصول نہیں ہوئی۔ کچھ وقت دیا جائے تو وہ دستاویز موصول ہونے پر پیش کردوں گا۔نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ سپریم کورٹ کی دی گئی مدت سب کے سامنے ہے، اب مزید وقت نہیں دیا جا سکتا۔خواجہ حارث نے کہا کہ دستاویز برطانیہ میں لینڈ رجسٹری ڈپارٹمنٹ کو بھی نہیں ملی، کب تک مل سکتی ہے کچھ وقت بتا نہیں سکتا۔ ایک ہفتے کا وقت اگر دیا جائے تو شاید وہ دستاویز آجائے۔نیب پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ اس وقت ملزم کی یہ درخواست معاملے کو التوا میں ڈالے گی، حتمی دلائل پہلے ہی مکمل ہو چکے ہیں۔احتساب عدالت نے خواجہ حارث کی ایک ہفتے کی مہلت دینے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز پر فیصلے محفوظ کرلیے۔یاد رہے کہ نیب پراسیکیوٹر اصغر اعوان نے گزشتہ روز اپنے حتمی دلائل مکمل کیے، اس سے قبل نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے پیر کے روز اپنے حتمی دلائل مکمل کیے تھے۔ سپریم کورٹ نے احتساب عدالت کو فلیگ شپ اور العزیزیہ ریفرنسز کا فیصلہ 24 دسمبر تک سنانے کی ڈیڈ لائن دے رکھی ہے۔العزیزیہ ریفرنس میں استغاثہ کے 22 گواہان نے بیانات قلمبند کروائے اور فلیگ شپ ریفرنس میں استغاثہ کے 16 گواہان نے بیانات قلمبند کروائے جب کہ نواز شریف نے دونوں ریفرنسز میں اپنا دفاع پیش نہیں کیا، دونوں ریفرنس کا فیصلہ 24 دسمبر کو سنایا جائے گا۔ یاد رہے سابق وزیراعظم نوازشریف کو سپریم کورٹ نے پاناما کیس میں تاحیات نااہل قرار دیا تھا جس کے بعد انہیں وزارت عظمی سے الگ ہونا پڑا اور عدالت کے ہی حکم پر ان کے خلاف نیب تحقیقات کا آغاز ہوا۔ قومی احتساب بیورو نے نوازشریف کے خلاف العزیزیہ، فلیگ شپ اور ایون فیلڈ ریفرنس بنایا۔بعد ازاں احتساب عدالت نے نوازشریف کو ایون فیلڈ ریفرنس میں 11 سال قید وجرمانے کی سزا سنائی جب کہ مریم نواز کو 7 اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو بھی ایک سال کی سزا سنائی گئی اور اب نوازشریف کے خلاف آخری 2 ریفرنسز پر فیصلہ آج محفوظ ہونے کا امکان ہے۔