Friday November 22, 2024

ملکی تاریخ میں پہلی سپریم کورٹ کی کارروائی براہ راست نشر، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر فل کورٹ بنانے کی درخواستیں قابل سماعت قرار

سلام آباد: ملکی تاریخ میں پہلی بار سپریم کورٹ کی کارروائی براہ راست نشر کی جارہی ہے اور عدالت عظمیٰ نے سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف اپیلوں پر فل کورٹ بنانے کی درخواستیں منظور کر لی۔ سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر سماعت چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں ہو رہی ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پہلے عدالتی دن پر فل کورٹ کی سربراہی کررہے ہیں، سپریم کورٹ کے 15 ججز پر مشتمل فل کورٹ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی سماعت کررہا ہے۔

وفاقی حکومت کی درخواستیں مسترد کرنے کی استدعا

وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف اپنا تحریری جواب اٹاری جنرل کے ذریعے عدالت میں جمع کرایا ہے جس میں وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف درخواستیں مسترد کرنےکی استدعا کی ہے۔ یاد رہے سپریم کورٹ کے 8 رکنی بینچ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر 13 اپریل کو عملدرآمد روکا تھا۔ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ مفاد عامہ کے مقدمات میں چیف جسٹس کے اختیارات کو تقسیم کرنے سے متعلق ہے۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے مطابق ازخود نوٹس لینے کا فیصلہ چیف جسٹس اور دو سینئیر پر مشتمل کمیٹی کر سکے گی۔

دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پوچھا کہ 9 درخواستیں ہیں اور وکلا کون کون ہیں؟ خواجہ طارق رحیم صاحب آپ دلائل کا آغاز کریں۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا دلائل دوبارہ سے شروع ہوں گے کیونکہ نیا بینچ تشکیل دیا گیا ہے، فل کورٹ بنانے کی 3 درخواستیں تھیں جن کو منظور کر رہے ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے ریمارکس میں کہا فل کورٹ اجلاس میں فل کورٹ سماعت کرنے کی منظوری دی گئی، عوام ہم سے 57 ہزار کیسز کا فیصلہ چاہتے ہیں۔ چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ خواجہ صاحب (خواجہ طارق رحیم) ہم آپ کو نہیں کہتے کہ کم بولیں مگر آپ بات کو جامع رکھیں، ماضی کو بھول جائیں ابھی کی بات کریں۔ جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ سیکشن 5 کا کیا ہوگا؟ کیا ایک پارٹی کی وجہ سے ایکسرسائز نہیں ہوگی؟

یاد رہے کہ گزشتہ روز ہی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس پاکستان کے عہدے کا حلف لیا تھا اور حلف لینے کے بعد پہلا مقدمہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سماعت کے لیے مقرر کیا تھا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے رواں برس اپریل میں کسی بھی آئینی مقدمے کے بینچ کا حصہ بننے سے معذرت کرتے ہوئے کہا تھا جب تک سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے متعلق درخواستوں پر فیصلہ نہیں ہوتا وہ کسی بینچ کا حصہ نہیں بنیں گے۔

FOLLOW US