اسلام آباد : ملازمہ تشدد کیس میں اہم پیش رفت سامنے آئی ہے۔ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے جج کی اہلیہ کو گرفتار کرنے کا حکم دے دیا۔ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج فرخ فرید بلوچ نے کیس کی سماعت کی۔کمرہ عدالت میں بچی کی ویڈیو لگا دی گئی۔عدالت نے ملزمہ کے وکیل کو دلائل دینے کی ہدایت کی، ملزمہ کے وکیل نے ایف آئی آر کا متن پڑھ کر سنایا۔ عدالت میں ملزمہ کے وکیل کی طرف سے فراہم کردہ ویڈیو بھی دکھائی گئی۔ ویڈیو میں لڑکی اور اس کی ماں نظر آرہی ہے۔جج نے استفسار کیا کہ کیا لڑکی فرنٹ سیٹ پر بیٹھی تھی ؟
وکیل ملزمہ نے بتایا کہ جی لڑکی فرنٹ سیٹ پر بیٹھی تھی۔یہ بہت بڑا بیان ہے کہ جج کی بیوی نے رضوانہ کو دھکا مارا حالانکہ ایسا کچھ نہیں۔جج نے کہا ہم نے میڈیا کو نہیں بلکہ ایف آئی آر کو دیکھنا ہے ، آپ کیا کہتے جو زخم بچی کو آئے ہیں وہ کیا اس کی والدہ نے پہنچائے۔ ؟وکیل ملزمہ نے عدالت کو بتایا کہ بلیک میل کرکے پیسے بھی مانگے گئے جتنے میں میں دے سکتا تھا دئیے۔وکیل صفائی نے کہا کہ تفتیشی افسر نے سرگودھا میں بس اسٹینڈ کی ویڈیو نہیں لی، ویڈیو میں دو کردار اور بھی ہیں جن کی وڈیو مقامی ہوٹل سے ملی، عدالت سے پہلے سومیا عاصم کا میڈیا ٹرائل شروع کردیا گیا، رپورٹ کے مطابق بچی ہسپتال 3 بجے صبح پہنچتی ہیں، یہ والی رپورٹ کہاں ہے؟ طبی رپورٹ کے مطابق 23 جولائی 5 بجے انجری ہوئی، پولیس کو کہا گیا کہ بچی اپنا بیان دینے کے حال میں نہیں۔
سرگودھا تک بچی بلکل ٹھیک گئی، کوئی ٹریٹمنٹ کی ضرورت نہیں تھی۔ 3 بجے سرگودھا پہنچنے کے بعد طبی معائنے کی ضرورت کیسے اچانک پڑ گئی بچی کو، اگر گرفتاری کے بعد بھی ضمانت ملنی ہی ہے تو ملزمہ کو جیل نہیں بھیجنا چاہیے، قانون کے مطابق عورت کو ضمانت ضرور ملنی چاہیے، کیس میں حقائق مسخ کیے گئے۔وکیل صفائی نے کہا کہ جے آئی ٹی کیوں بنی ہے؟ کیا مقصد ہے؟ ممبران کون ہیں؟ کیا جے آئی ٹی کے ممبران پولیس افسران ہیں؟ جب ممبران پولیس اہلکار نہیں تو جے آئی ٹی میں کیوں شامل ہے؟۔
جج فرخ فرید نے کہا کہ ابھی تو آپ کہہ رہے تھے کہ جے آئی ٹی کے سامنے دوپہر میں پیش ہونا ہے۔وکیل صفائی نے کہا کہ میں کس کس کے پاس جاؤں تاکہ اصل حقائق منظرعام پر آئیں۔ شفاف تفتیش کا مطلب ہی دونوں طرف سے حقائق کو منظرعام پر لانا ہوتا ہے۔بعدازاں عدالت نے کمسن ملازمہ پر تشدد کرنے والی سومیاعاصم کی ضمانت خارج کردی۔