اسکے فرشتے بنی ﷺ پر درود پڑھ رہے ہیں ۔ اے مومنو تم بھی انکے اوپر درود پڑھو اور پوری طرح سلام بھیجو‘‘ نبی کریم ﷺ نے فرمایا نے مجھ پر درود پاک نہ پڑھا اس کا وضو نہیں ہے۔ (کشف النعمہ صفحہ272)درودشریف ایک سلام ہے جو حضور ﷺ کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے اور اسکے بے بہا فوائدہیں جس سے دنیا و آخرت کی بھلائی اورکامرانی ممکن ہے۔درودشریف پیار ے نبی ﷺ پر سلام بھیجنے کو کہا جاتا ہے۔ درودشریف ایک دعا بھی ہے جس سے اﷲ کے پیارے رسول ﷺ پر رحمت طلب کی جاتی ہے اور سلامتی بھی طلب کی جاتی ہے۔حضرت شیخ صادی ؒ
نے شرح ورد الارویر میں بیان کیا ہے کہ حضرت شیخ عارف محمد حقیؒ نے ’’ خزینتہ الاسرار‘‘ میں لکھا ہے کہ درودشریف تقریباََ چارہزار قسموں کے ہیں۔ایک روایت میں بارہ ہزار بھی لکھا ہے۔ان میں سے ہر ایک دروددنیا کی کسی نہ کسی جماعت کا اپنے او رحضورﷺ کے درمیان تعلق و اُنس کے اعتبار سے پسندید ہ ترین ہے۔دنیا میں موجود ہر مسلمان اپنی مرضی کا من پسند درود پڑھ کر اپنے پیارے نبی ﷺ کی خوشنودی حاصل کی جستجو کرنے میں لگا ہو اہے اور اس کی بہت سی مشکلات و مسائل سے اس کی بدولت نجاب ممکن ہوتی جاتی ہے۔اﷲ تعالیٰ نے اس مادی دنیا میں جس طرح سے پھولوں پھلوں کو خاص شکل وصورت دی ہوئی ہے لیکن پھولوں کا سردار گلاب ہے اور آم پھلوں کا سردار ہے اُسی مانند درود شریف کو بھی عبادات میں خاص امتیاز حاصل ہے اور یہ وردوظائف کا سردار ہے۔ُُمشکل جو سر پر آپڑی تیرے ہی نام سے ٹلی مشکل کشا ہے تیر انام
تج پر لاکھوں درودوسلامہر مسلمان کے لئے جنت کے ساتھ ساتھ اﷲ تعالیٰ کے قرب کا حصول بھی اس کے پڑھنے سے حاصل ہوتا ہے ۔اﷲ تعالیٰ خود بھی درود پڑھ رہا ہے اور اسکے فرشتے بھی درودبھیجتے ہیں۔درودشریف اﷲ تعالیٰ کے ذکر اور بنی کریمﷺ کی تعظیم پر مبنی ایک بہترین عبادت ہے۔ہم تو صرف اﷲ کے ساتھ ہاں میں ہاں ملاتے ہیں اور بڑے سے بڑا فائدہ حاصل کر لیتے ہیں۔اس کو پڑھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم با وضو ہوں اور چلتے پھرتے پڑھتے رہیں اور اپنے تمام ترضروری کام کاج بھی کرتے رہیں،دل میں یا زبان سے با آواز بلند بھی پڑھ سکتے ہیں ۔حضرت
شیخ عبدالقادر جیلانی غوث الاغطم ؒ اپنی معرکتہ الا ٓرا تصنیف ’’ غنیط الطالبین‘‘ میں فرماتے ہیں کہ اُمت کا نبی کریم ﷺ پر درودبھیجنا شفاعت کا طلب کرنا ہے۔حضرت غوث الاعظم ؒ مزید فرماتے ہیں کہ درودشریف کا مطلب پیروی کرنا اورحرمت کرنا بھی ہے۔حضرت شاہ عبدالقادر صاحب نور اﷲ مرقدہ مرحوم فرماتے ہیں کہ (درودشریف ) اﷲ سے رحمت مانگنی اپنے پیارے نبی ﷺ پر اور ان کے گھرانے پر بڑی قبولیت رکھتی ہے۔ان پر ان کے لائق رحمت اُترتی ہے اور ایک دفعہ مانگنے سے دس رحمتیں نازل ہوتی ہیں ۔جو مانگنے والے پر اُترتی ہیں اور جب جس کا جی چاہے اتنی ہی رحمت حاصل کر لے۔حضرت علامہ زرقانی ’’شرح مواہب‘‘میں نقل کرتے ہیں کہ دوردشریف پڑھنے سے اﷲ تعالی کی بارگاہ میں قر ب حاصل ہوتا ہے۔جس کو بھی اﷲ تعالیٰ کا قرب آسانی سے ملا ہے تو درود شریف کی وجہ سے ہی ملا ہے اور جس کو والایت حاصل ہوئی ہے تو اسکی
بدولت ملی ہے۔ درودشریف پڑھنے والے کو دنوں طرف سے برکات ملتی ہیں اﷲ تعالیٰ کے دربار میں مقبولیت اور حضورﷺ کے دربار میں قبولیت ۔یہ ایک نہایت آسان اور بابرکت تجارت ہے جس سے آدمی کو بلاتکلیف صرف منافع ملتا ہے۔یہی وہ واحد وظیفہ ہے جس کے پڑھنے کے اُلٹ اثرات نہیں پڑتے ہیں اور ہم کثرت سے پڑھ سکتے ہیں۔حضرت علامہ احمد بن المبارک اپنی مشہور کتاب ’’لبریز‘‘ جو غوث الزمان برالعرفان سیدنا عبدالعزیز رحمت اﷲ علیہ کے ملفوظات پر مشتمل ہے۔گیارہویں باب میں فرماتے ہیں کہ حضرت شیخ سے اس قول کے بارے میں فرماتے سنا تھا کہ بنی کریم ﷺ
پر درودشریف ہر ایک شخص سے قطعی طور پر قبول ہے۔اس میں قطعی شک وشبہ نہیں کہ درودشریف تمام اعمام سے افضل ہے اور یہ ملائکہ کا بھی ذکر ہے جو کہ جنت میں رہتے ہیں ۔یہ ملائکہ جب بھی درودشریف کا ذکر کرتے ہیں ،توجنب کشادہ ہو جاتی ہے اور یہ کشادگی بنی کریم ﷺ پر درودشریف کی برکات کی بدولت ہوتی ہے۔جنت بڑھنا اس وقت بند کر دیتی ہے جب ملائکہ تسبیح پڑھنا شروع کرتے ہیں اور اﷲ تعالیٰ ان پر تجلی ڈالتا ہے ،جونہی تجلی پڑتی ہے ،ملائکہ تسبیح بیان کرنا شروع کر دیتے ہیں ۔تسبیح سنتے ہیں جنت ٹھہر جاتی ہے۔ایک بات یاد رکھنا چاہیے کہ قرآن شریف
اﷲ تعالیٰ کا کلام ہے مگر اﷲ نے کبھی یہ نہیں کہا کہ قرآن میں بھی پڑھتا ہوں اور تم بھی پڑھو۔لیکن درودشریف کے متعلق صاف صاف کہہ دیا کہ میں بھی سلام بھیجتا ہوں ،ملائکہ بھی اور مومنو تم بھی بھیجو۔اس کے معنیٰ صرف درودشریف پڑھنے سے ہی ہم’’مومن‘‘ ہو جاتے ہیں۔بہت سے لوگ اپنے آپ کو مومن تو بڑی خوشی سی کہلواتے ہیں مگر اُ ن میں سے اکثریت ایسی ہے جو کہ درود پڑھنے کی توفیق تک نہیں رکھتے ہیں۔قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں: ترجمہ: یعنی بلند کیا ہم نے تمہارے لئے تمہارد ذکرعلامہ قاضی عیاض ؒ تفسیر فرماتے ہیں کہ حق تبارک تعالیٰ نے اپنے حبیب احمد مجتبیٰ ﷺ سے ارشاد فرما یا ہے کہ :۔ ’’ میں نے تمہیں اپنی یاد میں سے ایک یاد کیا ،جس نے تمہارا ذکر کیا،اس نے میرا ذکر کیا،اس کا صاف اور صاف مطلب یہ ہے کہ جس نے حضورﷺ پر صلوۃ و سلام پڑھا تو اس نے تحقیق اﷲ تعالیٰ کا ذکر کیا۔حضر ت مولانا محمد
علی خان رامپٹوری مرحوم اپنی مشہورکتاب ’’فلاح دین ودنیا‘‘ میں فرماتے ہیں کہ جو شخص صد ق دل سے ایک مرتبہ حضرت محمد ﷺ پر درود شریف بھیجتا ہے ۔تو گناہوں سے ایسا پاک ہو جاتا ہے جیسے ماں کے پیٹ سے ابھی ابھی پیدا ہوا ہو۔ ایک لاکھ نیکیاں لکھی جاتی ہیں اس کے نامہ اعمال میں اور اسکا نام بھی زندہ اولیاء میں تحریر ہوتا ہے۔ رہے عزت و احترم محمدﷺ کہ بعد از خدا ہے مقام محمدﷺ ثبوت اس کا قرآن کی آیتیں ہیں کلام خدا ہے کلام محمدﷺایک سائل حضر ت علی رضی اﷲ عنہ کے پاس آ یا اور عرض کی کہ مجھے کچھ دیجئے ،میں تنگدست ہوں۔حضرت علی ؓ کے پاس اس وقت دینے کے لئیکوئی چیز نہ تھی۔آپنے دس بار درود پڑھ کر سئائل کی ہتھیلی پر پھونک مار کر فرمایا ۔ہتھیلی بندکر دو۔سائل نے باہر جا کر جب ہتھیلی کھولی تو سونے کے دنیاروں سے بھری پڑی تھی۔( فضل الصلواۃ واسلام صفحہ132)جب جضرت بابا فرید گنج شکر رحمتہ اﷲ علیہ نے دردد پاک کے فضائل بیان فرما رہے تھے تو پانچ درویش آئے اور عرض کیا ہم مسافر ہیں؟ خانہ کعبہ کی زیارت کے لئے جار ہے ہیں لیکن پیسہ نہیں۔یہ سن کر حضرت شیخ فرید شکر گنج رحمتہ اﷲ علیہ نے مراقبہ کیا اور سر اُٹھا کر کھجور کی چند گٹھلیاں لیں اور کچھ پڑھ کر ان سب مسافروں کو دے دیں۔درویشوں نے جب باہر جاکر انکو دیکھا تو وہ سونے کی اشرافیاں تھیں۔آپ کے رفیق حضرت شیخ بدرالدین اسحاق رحمتہ اﷲ علیہ نے بتایا کہ بابا فرید گنج شکر نے کھجور کی گھٹلیوں ں پر درود شریف پڑھ کر پھونکا تھا جس کی برکت سے وہ گٹھلیاں سونا بن گئیں۔(آب کوثر صفحہ 133)امام شافعی ؒ کے بڑے شاگرد حضرت امام اسمعیل مزنی رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ بعد مرنے کے امام شافعی ؒ کو خواب میں دیکھا
اور دریافت کیا کہ رب تعالیٰ نے کیا معاملہ کیا؟ بولے مجھے فورا بخش دیا اور فرشتوں کوحکم ملا کہ امام شافعی ؒ کو بڑے عزت و احترام کے ساتھ جنت میں لے آؤ ۔یہ سب اس درود شریف کی برکت کی وجہ سے ہوا تھا جو میں پڑھا کرتا تھا۔(روضتہ احباب)حضرت عمر بن خطاب ؓ کی خلافت کے زمانہ میں ایک شخص مالدار تھا۔لیکن اس کا کردار اچھا نہیں تھا۔درود پاک سے اسے بڑی محبت تھی درود پاک سے کبھی غافل نہیں رہتا تھا۔ جب اس کا آخری وقت آیا تو اس کا چہرہ سیاہ ہوگیا اور بہت زیادہ تنگی لاحق ہوئی۔اسی حالت میں اس نے ندا دی کہ اے اﷲ کے محبوب ﷺ میں درود پاک کی کثرت کرتا ہوں۔اچانک ایک دم ایک پرندہ آسمان سے نازل ہوا اور اپنے پر اس شخص پر پھیر دیئے ۔فورا چہرہ نور سے لبریز ہو گیا۔کستوری کی خوشبو مہک گئی اور وہ کلمہ پڑھتا ہوا دنیا سے رخصت ہوا۔مدفون ہونے کے بعد جب رات ہوئی تو ایک شخص نے دیکھا کہ وہ زمین اور آسمان کے درمیان چل رہا ہے اور پڑھ رہا ہے ’’ان اﷲ و َ ملائکہ یصلون البنی یا ایھا الذین آمنو صلواعلیہ وسلموتسلیما‘‘ (درہ النا صحین صفحہ172)نگاہ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر وہی قرآن و ہی فرقان وہی یسینٰ و ہی طہٰدنیا میں شاعر تو کئی گذرے ہیں لیکن جو بلند مرتبہ علامہ محمد اقبالؔؒ کو ملا ہے وہ کسی اور کا نصیب نہیں بنا ہے۔ علامہ اقبالؔؒ ایسے شاعر ہیں جنکا کلام اب تک دنیا کی تقریباََ ہر بڑی زبان میں ترجمے کے ساتھ چھپ چکا ہے ۔ اسکے علاوہ دنیا کے کئی اسکالروں نے علامہ محمد اقبالؒ پر تحقیقی کام کیاہے اور کر رہے ہیں ۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ پاکستان اور
ہندوستان سے زیادہ مغربی ممالک میں علامہ محمد اقبالؒ ؔپر تحقیقی کام ہو رہاہے اور ہر جگہ آپ ؒکی برسی بالخصوص جرمنی اورانگلستان میں منائی جاتی ہے۔عوام الناس نے آپ ؒکو ’’شاعر مشرق‘‘ کا نام دیا تو برگزیدہ بزرگوں نے ’’مفکر اعظم‘‘ کہہ کر پکارا۔ علامہ محمد اقبالؒ کوئی پیر،مفتی یا ولی کامل نہیں تھے پھربھی یہ اعزازت دنیا بھر میں سے مل رہے ہیں یہ کیا راز ہے؟ یہ راز صرف نبی اکرم ﷺ کے ساتھ لازول محبت اور عشق بنی ﷺ کی وج سے ہے جس کا ثبوت صرف اس ایک شعر سے ہی مل سکتاہے جس میں اقبالؒؔ فرماتے ہیں:۔ تو غنی ازہر دو عالم من فقیر روز محشر عذرہائے من پذیر درحسابم را تو بینی ناگزیر ازنگاہ مصطفےٰ پنہاں بگیر)اقبالؔ اؒﷲ تعالیٰ سے دعا مانگ رہے ہیں کہ تو دونوں جہانوں کا امیر ہے اور میں ایک فقیر ، مجھ سے کیا حساب کتاب لوگے ،قیامت میں مجھے بخش دینا ،لیکن اگر حسا ب کتاب لینا ضروری ہے تو حضور ﷺ کی نگاہ سے چھپ کر لینا تاکہ میرا پیار ا نبیﷺ میری خطاؤ ں کو نہ دیکھے ورنہ انکے سامنے مجھے بڑی شرمندگی ہوگی۔)اقبال اﷲ تعالیٰ سے شرم نہیں کر رہے ہیں ،ماں باپ سے بھی نہیں ، استادوں سے بھی نہیں ، اپنے مرشد سے بھی نہیں صرف اپنے پیارے آقا ﷺ سے شرم کر رہے ہیں ۔یکم دسمبر 1931کوجب علامہ قبالؔؒ مصر پہنچے اور دو دسمبر کوان سے ملنے مصر کے مشہور صاحب طریق بزرگ سید محمدماضی ابو العزائم اپنے دو صاحبزادوں کے ساتھ اس ہوٹل آئے جہاں اقبال ٹھہرے ہوئے تھے۔ اقبالؔؒ انہیں ہوٹل میں دیکھ کر پریشان ہوئے اور کہا کہ آپ نے تکلیف کیوں کی ،
میں خود حاضر ہو جاتا ۔ انہوں نے کہا ’’خواجہ دوجہاں ﷺ کا ارشاد ہے کہ جس نے دین سے تمسک کیا ہو اسکی زیارت کو جاؤگے تو مجھے خوشی ہوگی۔لہذا میں اس ارشاد کے اتباع میں چلا جاتا ہوں تاکہ میرے آقاﷺ مجھ سے خوش ہوں۔‘‘۔ اقبال ان کی بات سن کر بے تاب ہو گئے ۔سید ابو العزائم دیر تک بیٹھے نصیحتیں کر تے رہے یہ بھی کہا کہ میں بادشاہوں کی ملاقات کیلئے بھی گھرسے باہر نہیں نکلا لیکن آپ کی ملاقات کیلئے آیا ہوں۔ جب وہ چلے گئے تو آنسوؤں کا سیلاب اقبالؔؒ کی آنکھوں سے بے اختیار بہہ نکلا:’’ایسا زمانہ آگیا ہے کہ لوگ مجھ جیسے گناہ گار کو متمسک بالدین سمجھ کر حضور خواجہ دوجہانﷺ کے ارشاد کے اتباع میں بغرض خوشنودی آنحضرت ﷺ ملنے آتے ہیں۔‘‘اس راز سے پتا چلاکہ کیوں اﷲ کے بندے صرف اقبالؒ ؔہی اقبالؒؔ پکار رہے ہیں ۔ خاص طور پر پاکستان میں تو کوئی ایسا طالب علم نہیں ہوگا جس کو اقبالؔؒ کے کچھ نہ کچھ اشعاریا د نہ ہوں ۔ واقعی اقبالؔؒ نے حضور کریم ﷺسے وفا کی ہے ۔ علامہ محمد اقبالؔؒ کا دنیوی مرتبہ تو ہم دیکھ رہے ہیں یقینا لوح و قلم پر بھی وہ جنتی لکھے ہوئے ہیں۔ہمیں تو اسم محمدﷺ سے اک خزانہ ملا جو بے یقین تھے انہیں گھر کا راستہ نہ ملاسابق وزیر قانون ایس ایم ظفر کے استاد مولا نا بشیر احمد اخگر فرماتے ہیں کہ’’مولانا اشرف علی تھانوی نے 1945میں الیکشن کے زمانے میں تھانہ بون (یو۔پی) کی جامع مسجد میں وعظ کر تے ہوئے فرما یا کہ تم لو گ کہتے ہو کہ محمد علی جناح ایسا ہے ایسا ہے مگر جو رات میں نے منظر دیکھا ہے وہ کچھ اور ہے۔’’میں نے دیکھ
کہ ایک وسیع وعریض میدان ہے جس میں کروڑہا تعداد میں لو گ ہیں درمیان میں ایک مرصع تخت ہے جس کے حسن و خوبی بیان کرنے کیلئے میرے پاس الفاظ نہیں وہ کسی اور دنیا کا تخت ہے۔ اس تخت پر حضور کریم ﷺ رونق افروز ہیں۔ حضور ﷺ کے پہلو میں اسی تخت پر ایک انسان بیٹھا ہواہے میں نے حضور ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ یارسولاﷲ ﷺ یہ ہم کیا دیکھ رہے ہیں ؟یہ کون ہے؟حضور سرور کائنا ت ﷺ نے فرمایا ’’یہ محمد علی جنا ح ہے۔‘‘( نوائے وقت 22ستمبر 1989)اس منظر اور اس حقیقت سے یہ حدیث شریف بھی یاد آتی ہے کہ فرمایا آقائے نامدار ﷺ نے کہ قیامت کے روز وہ شخص سب سے ذیادہ میرے قریب ہوگا جس نے دنیا میں مجھ پر سب سے ذیادہ درود بھیجا ہوگاظاہر ہو گیا کہ قائد اعظم ؒ ؒ کثرت سے دورودشریف پڑھتے تھے۔کی محمدﷺ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیںحضرت ابو بکر شبلی ؒ کو وقت کے بادشاہ نے بلو ابھیجا اور عرض کی یا حضرت میری بیماری کو چھ مہینے گزر گئے لیکن کہیں سے آرام نہ آیا ۔حضرت شبلی نے فرمایا فکر مت کرو،اﷲ تعالیٰ کی رحمت سے ابھی آرام آجائے گااور آپ نے درود شریف پڑھ کر اس بادشاہ کے جسم پر پھونکا ۔بادشاہ اسی وقت تندرست ہو گیا اور اس کا مرض جاتا رہا۔(راحت القلوب صفحہ 61)دامن مصطفیٰ ﷺ سے جو لپٹا یگانہ ہو گیا جس کے حضورﷺ ہوگئے اسکا زمانہ ہوگیادرامی شریف میں ہے بینہ بن وہب ؓ سے مروی ہے کہ کعب احبار رضی اﷲ عنہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہ کے پاس آئے اور حاضرین
نے حضورﷺ کا ذکر کیا تو کعب احبارؓ نے کہا کہ کوئی ایسا دن نہیں آتا جس میں ستر ہزار فرشتے نہ آتے ہوں۔یہاں تک کہ رسول اکرم ﷺ کی قبر شریف کو احاطہ کر لیتے ہیں اور آپ ﷺ پر درودشریف پڑھتے ہیں۔یہاں تک کہ شام ہو جاتی ہے اور وہ آسمان پر چڑھ جاتے ہیں اور انکی جگہ دوسرے فرشتے اُترے ہیں اور وہ بھی ایسا