Friday May 17, 2024

ایران اور عربوں کے درمیان پاکستان صلح کا آرزو مند ہے، آپ ایسا کیوں چاہتے ہیں؟ حسن روحانی کے اس سوال کا آرمی چیف قمر جاوید باجوہ نے ایسا جوا

اسلام آباد (نیوز ڈیسک) عربوں کی باہمی آویزش کے علاوہ، عرب ایران کشمکش کی ایک بھاری قیمت پاکستان نے ادا کی ہے۔سینئر صحافی و کالم نگار ہارون الرشید نے اپنے کالم میں لکھا کہ متاثر ہونے والے بعض خاص طبقات کی حد تک فرقہ وارانہ رجحانات اس ملک میں پیدا کر دیے ہیں، جو پہلے ہی کئی سنگین مسائل سے دوچار ہے۔کچھ تخریب کاروں کی عرب

امداد فرماتے رہے، کچھ کی ایرانی۔ ایران میں کچھ تخریب کاروں کو تربیت بھی دی گئی۔ درآں حالیکہ عراق ایران جنگ کے ہنگام پاکستان نے اسلحے سے لدی ہوئی گاڑیاں ایران بھیجیں۔ افسوس کہ کسی ایرانی اخبار میں، ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے کسی چینل میں پاکستان کے حق میں کبھی ایک کلمہ خیر نہیں کہا جاتا۔ یہی روش بعض عربوں نے اختیار کرنا شروع کی ہے۔ پاکستان سے زیادہ اس کا نقصان خود انہی کو پہنچے گا۔ پاکستانی معاشرے میں عرب ایرانی کشمکش سنگین تر ہوتی جا رہی ہے۔ دو برس ہوتے ہیں، ایران کے سپریم لیڈر خامنہ ای نے کہا تھا کہ عرب حکمران طائف کے مشرکین سے بدتر ہیں۔ گزشتہ روز سعودی عرب کے ”ولایتِ فقیہہ‘‘ شہزادہ محمد بن سلمان نے ارشاد کیا کہ ایرانی حکومت ہٹلر سے بدتر ہے۔ ہٹلر نے ہزاروں انسانوں کو بھٹیوں میں زندہ جلا دیا تھا۔ لاکھوں کو قتل کر ڈالا تھا۔ آس پاس کی سرزمینوں پر اس کی افواج چڑھ دوڑی تھیں۔ اس جنگِ عظیم کا وہ ذمہ دار تھا، پانچ کروڑ انسان جس میں قتل ہوئے اور دس بارہ کروڑ بے گھر۔ ایرانیوں پہ کتنے ہی اعتراض ہوں، کیا انہوں نے کسی جنگِ عظیم کی بنیاد رکھی ہے؟ اسی طرح عرب مسلمانوں کو مشرکین سے

بھی کمتر قرار دینا کسی مسلک اور کسی موقف نہیں، پاگل کر دینے والی نفرت کا اظہار ہے۔ 2013ء کے مشہد میں ایک ایرانی اخبار کے ایڈیٹر سے میں نے پوچھا تھا، حضور، کیا خطا ہم سے سرزد ہوئی کہ ہمیشہ پاکستان کی آپ تحقیر کرتے رہتے ہیں۔ اس سوال کا کوئی جواب اس کے پاس نہیں تھا۔ شام اور یمن میں ایک دوسرے کے خون کے وہ درپے ہیں۔ پاگل پن کے

سوا یہ کچھ بھی نہیں۔ خطے کے کسی فریق کو اس سے کچھ بھی حاصل نہیں ہو گا۔ فائدہ پہنچے گا تو امریکہ اور اسرائیل کو یا ابھرتی ہوئی نئی طاقتوں روس اور چین کو۔ احمقوں اور دیوانوں کے لیے کوئی جنت نہیں ہوتی۔چار پانچ ماہ ہوتے ہیں، جنرل قمر جاوید باجوہ ایران گئے۔ حسن روحانی سے انہوں نے کہا: ایران اور عربوں کے درمیان پاکستان صلح کا آرزومند ہے۔ ”آپ ایسا کیوں چاہتے ہیں؟‘‘ انہوں نے پوچھا۔ اپنے خاص دھیمے لہجے میں جنرل باجوہ نے جواب دیا: اس لیے کہ یہ قرآنِ کریم کا حکم ہے۔ اللہ کی کتاب یہ کہتی ہے کہ دو مسلمان گروہوں میں جھگڑا ہو تو مصالحت کرا دی جائے۔ جوش و جذبے سے مغلوب ہوتے ہوئے روحانی اپنی کرسی سے اٹھ کھڑے ہوئے اور دیر تک جنرل کے جذبات کو سراہتے رہے۔ بات مگر وہیں ختم ہو گئی۔ قومیں جب تنگ نظری اور جذباتیت کا شکار ہو جائیں تو صحرا کے مسافروں کی طرح ویرانوں ہی میں گردش کیا کرتی ہیں۔

FOLLOW US