Thursday February 13, 2025

ڈپٹی کمشنر گوجرانوالہ کی پراسرار موت۔۔۔ کیا کوئی آدمی اپنےہاتھ خود باندھ کر خود کشی کر سکتا ہے؟؟ پولیس حکام نے ایک کانسٹیبل سے اس کی فرضی مشق کرائی تو کیا نتیجہ نکلا؟؟حیران کن انکشافات

گوجرنوالہ (مانیٹرنگ ڈیسک) ڈپٹی کمشنر سہیل احمد ٹیپو کی خود کشی کے معاملے کی کئی پہلوئوں سے تحقیقات کی جارہی ہیں۔ ایک اہم بات جو اس معاملے میں ایک معمہ بنی ہوئی تھی وہ یہ تھی کہ کیا پنکھے سے لٹکی ہوئی لاش ہو ایسی صورت میں خود کشی قرار دیا جا سکتا ہے جبکہ لاش کے ہاتھ پیچھے کی طرف باندھے ہوئےہوں۔ایک طرف تو اس معاملے

کومحکمانہ مالی امداد کے حصول کےلئے قتل قرار دلوانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ کیونکہ خود کشی کی صورت میں ایسی کوئی بھی امداد نہیں دی جاتی ۔ تو دوسری جانب پوسٹ مارٹم کرنے والی ڈاکٹروں کی ٹیم نے بھی اس معاملے پر اپنی رائے دی ہے کہ انھوں نےاپنے کیرئیر میں ایسے قتل یا خودکشی کے بارے میں کبھی سنا اور نہ دیکھا ۔ یہ پہلا کیس ہے۔ پولیس حکام نے انکوائری کے دوران ایک کانسٹیبل کو اپنے ہاتھ خود باندھ کر خود کشی کی فرضی مشق بھی کروائی تاکہ پتہ چلا یا جاسکے کہ ایسی خود کشی ممکن بھی ہے یا نہیں۔ معلوم ہوا ہے کہ کمشنر گوجرانوالہ نے آج سے کچھ عرصہ قبل ڈپٹی کمشنر سہیل محمود ٹیپو کو ڈپریشن کا شکار ہوتے دیکھ کر ان کا معائنہ نفسیاتی علاج معالجہ کرنے والے ماہرین سے کرایا تھا جنھوںنے بتایا تھا کہ ڈپٹی کمشنر ٹیپو کو ٹھیک ہونے کےلئے دوائوں کی ضرورت ہے۔ اسی طرح سہیل محمود ٹیپو کے اہل خانہ نے یہ بھی بتایا کہ قتل یا خود کشی کی رات ساڑھے 9بجے سہیل ٹیپو نے اپنی اہلیہ بجے بات کی تھی۔ اور پھر وہ ساری رات نہیں سوئے ۔ اور رات کے پچھلے پہر تین بجے انھوںنے اپنی والدہ کو بتایا کہ اگر کوئی شور وغیرہ سنائی دے تو فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ چھت پر بکری باندھی ہوئی ہے۔ یعنی وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کی خود کشی کی وجہ سے کوئی شور سنائی دے اور انھیں بچانے کی کوشش کی جائے۔ کیا سہیل محمود ٹیپو کو کسی افسر یا وزیر کی ڈانٹ ڈپٹ کا سامنا تھا؟ کیا وہ اپنی نوکری کے دوران کسی دبائو کا شکار تھے؟ کیا انھیں کسی غیر قانونی کام کےلئے اکسایا جا رہاتھا جس کےلئے وہ رضا مند نہیں تھے؟ اور کیا یہ سارے حقائق کھل کر آبھی سکیں گے یا نہیں؟؟آئندہ چند روز میں صورتحال واضح ہو جائے