جب ایک غیر شادی شدہ مصری خاتون تیس برس کی ہوتی ہے۔گھڑی کی سوئیاں رات کے 12 بجنے کا اعلان کرتی ہیں۔ میں اپنی زندگی کی تیسری دہائی ختم کر کے چوتھے عشرے میں داخل ہو رہی ہوں۔ میری زندگی میں سنجیدگی، بلوغت اور گرم جوشی کا ایک نیا دورشروع ہو رہا ہے۔ میرے ارد گرد سب مجھے کئی روز سے یقین دلا رہے ہیں کہ اس سالگرہ پر کوئی بہت اہم مابعدالطبعیاتی واقعہ رونما ہونے جا رہا ہے ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جیسے ہی گھڑی نے6جولائی کے نئے دن کا آغاز کیا تو میںنے کوئی خاص تبدیلی محسوس نہیں کی۔
وہی پرانی امیدیں اور خوف میرے ساتھ تھے۔میں رباب فتحی ہوں ، ایک تیس سالہ غیر شادی شدہ مصری صحافی۔ جب سے میں اپنی عمر کے تیسویں سال میں داخل ہوئی ۔ مجھے بار بار اپنی آزادزندگی کے بارے میں اس سوال کا سامنا کرنا پڑتا:’آپ کی ابھی تک شادی کیوں نہیں ہو پائی؟‘ یا پھر اسی حوالے سے اشاروں میں سوال کیا جاتا:’کوئی تازہ خبر؟ ‘ یا پھر مجھے دعا دی جاتی کہ خدا کرے تمہاری جلد شادی ہو جائے ، اس کے ساتھ مجھے دلچسپ کہانیاں بھی سنائی جاتیں ، ’شادی زندگی کا حصہ ہے، مجھے ایک مرد کی سخت ضرورت ہے جس کے ساتھ میں اپنی زندگی کا ہر پل بانٹ سکوں۔ان کہانیوں سے مجھے یہ لگنے لگتا کہ مجھے واقعی اپنی زندگی کو نئے سرے سے شروع کرنا چاہئیے۔ ‘مصری میں ایک کنواری خاتون ہونے کے ناتے پہلے پہل مرا جواب خاصا عامیانہہوتا تھا، جیسا کہ مری دادی مجھ سے کہا کرتی تھیں ’’میرے لئے شادی کرو اورخوش رہو بیٹیا‘۔ میں اپنی دادی کو جواب دیا کرتی تھیں:’دادی جان! آپ میرے بارے میں مطمئن رہیں کیونکہ میں اپنی زندگی سے بہت خوش ہوں۔ ‘اور میرا واقعی یہی مطلب ہوا کرتاتھا۔میں خود کو ان چند خوش قسمت افراد میں شامل کرتی ہوں جنہیں زندگی نے عظیم ماں باپ کی دولت سے مالا مال کیا۔میرے ماں باپ یہ جانتے تھے کہ بچوں کی کس طرح تربیت کرنی ہے۔ میرے والدین نے میرے تمام فیصلوں کو اہمیت دی ہے ،انہوں نے مجھے کبھی بھی شادی کے لئے نہیں اکسایا۔ اس کے برعکس مجھے سکھایا کہ بہترین تعلیم، خود انحصاری، اور لگن کامیاب زندگی کا صحیح نسخہ ہے۔میرے والد کا قول ہے:’آپ تب تک آزاد ہیں جب تک کوئی آپ کو نقصان نہ پہنچائے۔‘ ان کی یہی کوشش رہی کہ ان کی تربیت میری عملی زندگی میں شامل ہو۔ مری والدہ بھی والد سے مختلف نہیں تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ عمر کے تیسویں سال میں
غیر شادی شدہ ہونا میرے لئے کسی طرح سے بھی مسئلہ نہیں رہا حالانکہ اس حوالے سے مصری روایات خاصی تکلیف دہ ہیں۔مصر میں کسی بھی غیرملکی یا اجنبی سے پہلا سوالاس کی عمر کے حوالے سے کیا جاتا ہے۔ mمصری سمجھتے ہیں کہ تعلیم اور ہنر سیکھنے کی ایک عمر ہوتی ہے۔ وہ ہر اس کام سے ہاتھ کھینچ لیتے ہیں جو ان کی عمر کی مناسبت سے نہ رکھتاہو۔ بعض اوقات وہ خود کو کھلکھلا کر ہنسنے اور مسکرانے سے بھی روک لیتے ہیں کیونکہ یہ انکی عمر کی مناسبت سے درست نہیں۔ایسے ماحول میں مجھے تیس برس کا ہو نا ایک چیلنج لگا۔ میں نے اپنے ارد گرد کے لوگوں سے عمر ، جذبات اور سفید بالوں کے حوالے سے ہمیشہ منفی رائے ہی سنی۔ آپ جب بھی باہر کہیں کھانا کھانے کے لئے انہیں کہیں گے توجواب گا کہ ان کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں، وہ کیسے باہر جا سکتے ہیں؟ والدین کے لئے اپنے بچوں کے ساتھ اچھی اور بھرپور زندگی کا توازن قائم رکھنا بہت مشکل ہے۔ اپنی زندگی کے بہترین وقت کو ضائع کر کے اس کی شکایت کرنے اور اس وقت کو یاد کرکے شکایت کرنے کا کوئی جواز نہیں ۔میرا کہنا ہے کہ وہ زندگی بھرپور انداز میں جی سکتے ہیں۔مجھے لگتا ہے کہ میرے حلقہ احباب میں سب لوگ جیسے مردہ بیٹری سیل ہیں۔ ان سے جب بھی کہا جاتا ہے کہ آؤ کچھنیا سیکھتے ہیں جیسا تو ان کی جانب سے یہ سننے کو ملتاہے، ’ کیا بچگانہ بات کر رہی ہو۔‘ میرا خیال ہے کہ کہ جب تک آپ اور آپ کے پیارے تندرست ہیں تب تک آپ کو یہ حق نہیں کہ آپ گزرے وقت کی شکایت کرتے پھریں۔مصری معاشرے میں کسی تخلیقی کام کے بغیر کنوارے پن کے ساتھ بڑھاپے کی طرف سفر خاصہ کٹھن ہے ۔ مثال کے طور قاہرہ کے گھٹن زدہ ماحول میں دوڑ لگانا یا سائیکل چلانایا پھرکوئی ادبی محفل ڈھونڈنایا کھانا پکاناسیکھنا خاصا دشوار ہے۔اگر آپ خودسے کچھ کرنا چاہیں بھی تو ارد گرد کے ماحول کی وجہ سے یہ بھی آسان نہیں۔میں جانتی ہوں کہ گزرتی زندگی کے ساتھ ہماری معصومیت ختم ہوتی جاتی ہے اور ایک طرح کی دانائی ہمیں آ لیتی ہے۔ زندگی
وہ راستہ ہے جہاں درد دل کے ساتھ نئے تجربات ہاتھ آتے ہیں۔ اگر آپ ناممکنات کو حقیقت میں بدلنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تو یہ زندگی ایک بوجھ بن جاتی ہے۔مصر میں مرداور عورتیں 30 کی عمر کو پہنچتے ہیں تو ان کے دوست بھی کم ہوجاتے ہیں اور ان کی سماجی سر گرمیاں بھی کم ہو جاتی ہیں۔لیکن زندگی اتنی بھی سنگین نہیں ہے۔ پمہں ایسے لوگ بھی ملتے ہیں جواپنے ٹھوس اورمضبوط خیالات سے ہماری زندگیاں بدل دیتے ہیں۔تین سال پہلے مجھے مریان ملی ۔ اس نے مجھے اپنے بک کلب میں شامل کر لیا جو سات حیرت انگیز خواتین پر مشتمل تھا۔ ہم اکٹھے کتاب پڑھتے اور پھراس پر بحث کے لئے ایک مخصوص جگہ پر ملتے۔ اس گروپ تھراپی سے ہمیں زندگی کا معنی ملنے لگا ۔میں سمجھتی ہوں کہ یہ ضروری نہیں کہ آپ نے زندگی کہ کتنے سال گزارے بلکہ یہ ضروری ہے کہ آپ نے کتنا عرصہ زندگی کو بھرپور اور بہترین طریقے سے جیا ۔میری دادی نے ایک بار کہا تھا:’جوایک ہی جگہ پر زندہ رہتے ہیں وہ صرف وقت گزارتے ہیں مگروہ جو سفر کرتے ہیں وہ بہت کچھ دیکھتے ہیں‘۔ہاں! میں 30 کی ہو گئی ہوں، میں مصر میں رہتی ہوں، میں خود کو خوش قسمت تصور کرتی ہوں کیونکہ یہاں ایسا بہت کچھ ہے جس سے میں لطف اندوز ہوتی ہوں۔میں اس قابل ہوں کہ اپنے خواب محسوس کر سکوں، کھوج جاری رکھ سکوں۔ میں خود کو ہر روز یہ یاد دلاتی ہوں مجھے زندگی سے کچھ بڑھ کر عطا کیا گیاہے جیسا کہ گبریل گارشیا مارکیز کہتا ہے:’ میں کم سوتا ہوں، میں زیادہ خواب دیکھ سکتا ہوں کیونکہ میں جانتا ہوں ہر منٹ میں جب مری آنکھ بند ہوتی ہے تب میری زندگی کے 60 روشن سکینڈ ضائع ہو جاتے ہیں۔ میں تب بولتا ہوں جب دوسرے خاموش ہو جاتے ہیں۔ میں تب جاگتا ہوں جب دوسرے سو رہے ہوں، کیونکہ مستقبل ہر بوڑھے یا جوان کو نصیب نہیں ہوتا ۔