Sunday November 24, 2024

وہ چھ آسان ذہنی مشقیں جو 80 سال کی عمر میں بھی آپ کی یادداشت کو جوان رکھیں گی

کیا آپ کو بھی بچپن اور نوجوانی میں دیکھی گئی اپنی پسندیدہ فلموں کے ڈائیلاگ آج بھی ازبر ہیں لیکن اب بڑھتی عمر کے ساتھ بہت شوق سے دیکھی گئی فلم میں سُنے گئے مکالمے تو دور کی بات، فلم کا نام یاد کرنے میں بھی آپ کو دشواری ہوتی ہو۔ کیا آپ اپنی کسی بھی میڈیسن یا فوڈ سپلیمنٹ کو ہاتھ میں لے کر گھورتے ہوئے دیر تک یہ سوچتے ہیں کہ کیا میں یہ ٹیبلٹ کھا چکا ہوں یا اس کو لینا باقی ہے؟ یا چلیں یہی بتا دیں کہ کل رات جو گھر والوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانے کے دوران جس کتاب کو آپ پڑھنے کی کوشش کر رہے تھے، اس کو آپ نے کس باب پر بند کر کے رکھا تھا جبکہ آپ تو وہی ہیں جو بچپن میں ایک بار سبق پڑھ کر اگلے دن کلاس میں فرفر ٹیچر کو زبانی سنا کر تقریبا روز ہی داد وصول کیا کرتے تھے۔

جان لیں کہ آپ بھولنے کے اس مرض میں تنہا نہیں بلکہ ہمارے اطراف ایسے لوگ موجود ہیں جن کو ماہ و سال گزرنے کے ساتھ یاد رکھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے لیکن اچھی بات یہ ہے کہ اپنی یاداشت کو بہتر بنانے پر کام کرنا کچھ زیادہ مشکل نہیں۔ امریکہ کی جارج واشنگٹن یونیورسٹی ہسپتال اور سکول آف میڈیسن اینڈ ہیلتھ کے پروفیسر رچرڈ ریسٹک کی عمر 81 برس ہے اور ان کی یاداشت اس عمر میں بھی قابل رشک ہے۔

دماغ اور اس کے کام پر 20 کتابیں لکھنے والے مصنف پروفیسر رچرڈ نے یاداشت کو بہتر بنانے کے چند آسان طریقے بتائے ہیں۔ پروفیسر رچرڈ کے مطابق ’ یاداشت بہتر بنانے کے لیے ہمیں روزانہ اپنے دماغ کی ایسی ہی ورزش کرنی ہو گی جس طرح ہم فٹ رہنے کے لیے جسمانی مشقیں کیا کرتے ہیں۔‘ ’ہمیں اپنی یادداشت کو بے مثال بنانے کے لیے روزانہ دماغی ورزش کرنا ہو گی جس کے بعد آپ میری طرح 81 برس کی عمرمیں بھی چیزیں یاد رکھنے کے قابل ہو سکتے ہیں ۔‘ بی بی سی منڈو کے ساتھ بات چیت میں پروفیسر رچرڈ نے یادداشت کو تربیت دینے اور مضبوط کرنے کے لیے کچھ اہم نکات شیئر کیے ہیں۔

خشک مضامین کے بجائے فکشن اور دلچسپ ناولز کا مطالعہ
علمی اورغیر افسانوی کتابیں معلومات حاصل کرنے کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہیں، لیکن جب بات آئے آپ کی یادداشت کو تیز کرنے کی تو اس کے لیے ناول بہت زیادہ مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ پروفیسر رچرڈ کے مطابق ’اب میری ہی آخری کتاب کی مثال لیں جو علمیت سے تو بھرپور ہے تاہم اگر بات آئے کہ آپ کو اپنی ذہنی مشق پر کام کرنا ہےتو اس کے لیے آپ کو علم و تحقیق سے بھرپور اس کتاب کے مندرجات میں سے اپنی دلچسپی کا مواد منتخب کر کے پڑھنا ہو گا تاکہ دماغ اس کو جزب کرنے کی مشق کر سکے۔‘ پروفیسر رچرڈ کے مطابق ’ فکشن یا افسانے سے متعلق کتابیں آپ کی یادداشت کوبڑھانے میں ایک ٹانک کا سا کام کر سکتی ہیں۔ دلچسپ ناول اور افسانے یادداشت کے نقطہ نظر سے بہت کارآمد ہیں۔ ’ایک پیچیدہ مگر علمی کتاب کے مقابلے میں دلچسپ ناول میں آپ کو محتلف کردار ملیں گے۔ ہو سکتا ہے آپ کو اپنی پسند کا کردار دوسرے باب میں ملے اور پھر دسویں باب تک وہ کردار دوبارہ نمودار نہ ہو۔ لیکن کہانی میں تجسس برقرار رہنےکے باعث اس کے کرداروں اور پلاٹ کی تفصیلات کے درمیان روابط خالصتاً علمی تحریروں کے مقابلے میں یادداشت کو ذیادہ بہتر بنانے میں کارآمد رہتے ہیں۔‘

چیزوں کو لفظوں کے بجائے تصویروں سے یاد رکھیں
پروفیسر رچرڈ کے مطابق چیزوں کو یاد رکھنے کا یہ ایک بنیادی اصول ہے جس میں ان کو خاکوں یا تصاویر کی صورت میں یاد رکھا جاتا ہے۔ ’مثال کے طور پر اگر کسی کا آخری نام گرین اسٹون ہے تو ہم اپنی پسندیدہ جیولری میں لگے سبز پتھر ’زمرد‘ کو زہن میں لا کر نام دہرا دیں تو وہ یاد رکھنا آسان اور دلچسپ ہو گا اور آپ جب بھی اس نام کو یاد کرنے کی کوشش کریں گے تو آپ کو فورا اپنا ہار یا انگوٹی میں لگا زمرد یاد آئے گا اور اس سے آپ اسے کبھی نہیں بھول پائیں گے۔‘ پروفیسر رچرڈ کے مطابق یہ سادہ حکمت عملی آپ کے دماغ کو بغیر کسی پریشانی کے اسے یاد رکھنے میں مدد دے گی۔ ’چیزیں یا مقامات یاد رکھنے کی ایسی ہی ایک اور ترکیب کے مطابق ان جگہوں کا دماغی نقشہ بنایا جایا جانا چاہیئے جن سے ہماری واقفیت ہے جیسے کسی مقام کے پاس آپ کی پسندیدہ مشروب کی دکان۔ ‘ ان کے مطابق ’اگر کبھی آپ کو دودھ اور روٹی خریدنا یاد رکھنا ہو تو ان چیزوں کے ساتھ زہن میں ایک نقشہ ترتیب دیں اور اس نقشے میں اس دکان اور اپنے گھر کے بیچ میں ڈرامائی تصویریں مرتب کریں جنھیں بھولنا مشکل ہو گا۔ ‘ پروفیسر رچرڈ نے بتایا: ’میں تصور میں گھر سے لائبریری کا راستہ لاتا ہوں۔ پھر خیالی آنکھ سے دیکھتا ہوں کہ میرے گھر کی چمنی سے دھویں کی جگہ دودھ بہہ رہا ہے اور سڑک پر پھیل رہا ہے اور ساتھ میں میں دماغ میں اپنے تصور میں لائبریری کا تصور لا کر شیلفوں میں کتابوں کے بجائے ڈبل روٹی کے ٹکرے بھرے دیکھتا ہوں۔ اس طرح یہ تصوراتی نقشے یاد رہتے ہیں اور مجھے دودھ ڈبل روٹی لانا نہیں بھولتی۔

تنہا ہوں یا دوستوں میں ذہنی کھیلوں میں مصروف رہیں
جب کبھی کوئی تقریب ہو یا دوست احباب اکھٹا ہوں ایسے میں فرصت میں کھیلے جانے والے پسندیدہ گیمز میں سے ایک ہے 20 سوالوں میں جواب ڈھونڈنا۔ یہ کھیل پروفیسر رچرڈ کو خود بھی بہت پسند ہے جسے وہ ذہنی مشق اور یادداشت کے لیے ایک بہترین ورزش کہتے ہیں۔ پروفیسر رچرڈ کے مطابق ’ یہ کھیل ایک کھلاڑی یا ایک گروپ پر مشتمل ہوتا ہے جسے ایک شخص، چیز یا جگہ کے بارے میں سوچنا ہوتا ہے جبکہ باقی دیگر 20 سوالات پوچھ کر اندازہ لگاتے ہیں کہ بوجھے جانی والی چیز کیا ہے۔ گیم کی تکنیک یہ ہے کہ سوال کرنے اور جواب دینے والے دونوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ پوچھا کیا گیا ہے تاکہ غلط اشارے نہ ملیں۔ دوسرا سوالات کو دہرایا نہ جائے اور کھیل کے اختتام تک درست جواب پر پہنچا جا سکے۔ ‘ ان کے مطابق ’اگر آپ کھیلوں کے شوقین ہیں تو اپنی پسندیدہ ٹیم کے تمام کھلاڑیوں کو یاد رکھنے کی کوشش کریں۔ ایک بارجب آپ ان کو ذہن نشین کر لیں تو ان کے نام حروف تہجی کی ترتیب سے دہرائیں اور اس ترتیب میں کھلاڑیوں کی فہرست بنانے کی کوشش کریں۔‘

ٹیکنالوجی کا ذہانت سے استعمال
سپر مارکیٹ سے خرید ی جانے والی اشیا کی فہرست بنانے میں کوئی مزائقہ نہیں، نہ ہی کسی ایسی چیز کی تصویر اپنے فون میں محفوظ کرنا برا خیال ہے جو ہم نے کبھی نہ خریدی ہو۔ اگرچہ سیل فون اور اسی طرح کے دیگر آلات کا استعمال ہماری یادداشت کو کمزور کرتا ہے، لیکن ہم ٹیکنالوجی کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔ پروفیسر رچرڈ کے مطابق ’جب ہم سپر مارکیٹ جاتے ہیں تو پہلے یاد رکھنے کی کوشش کریں کہ ہمیں کیا کیا خریدنا ہے ۔ جب زہن میں آنے والی اشیا کی خریداری مکمل ہونے لگے تو فہرست پر نظر ڈالیں کہ کچھ رہ تو نہیں گیا جو آپ بھول رہے ہیں۔ نئی چیز کی خریداری کے وقت یہ یاد رکھنے کی کوشش کریں کہ جو آپ خریدنا چاہ رہے ہیں وہ کیسی تھی۔ ایک بار جب آپ مطلوبہ شے کی دیکھ بھال کر لیں تو تصویر سے میچ کریں کہ آپ نے وہی لیا ہے نہ جو آپ نے سوچا تھا۔ اس مشق کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی چیز کو بھولنے سے بچنے کے لیے آپ یاد رکھنے کا ٹول نہیں بدلیں بلکہ پہلے دماغ کو استعمال کریں اور پھر بعد میں ایک بار پھر چیک کریں کہ اپ کہاں تک درست تھے۔ اس طرح رفتہ رفتہ اپ کا دماغ شارپ ہوتا جائے گا۔

سستانے کے لیے قیلولہ (مختصرنیند) لیں
کچھ لوگ کام کے دوران ایک وقفے میں قیلولہ لیتے ہیں تاکہ تازہ دم ہو سکیں۔ اس پریکٹس پر بعض ماہرین اختلاف بھی رکھتے ہیں، تاہم ڈاکٹر رچرڈ کے مطابق یاداشت کو بہتر رکھنے میں مختصر جھپکی مدد دیتی ہے۔ پروفیسررچرڈ خود بھی قیلولہ کے عادی ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ نیند کی ایک جھپکی لینا معلومات کو جذب کرنے، انھیں یاد رکھنے والی میموری کو ’انکوڈ ‘ کرنے میں مدد کرتا ہے تاکہ بعد میں معلومات تک رسائی بآسانی ہو سکے۔ اس بات کی تصدیق کے لیے انھوں نے طالب علموں کے دو گروپس کو چنا۔ ایک گروپ کو کچھ سیکھنے کے عمل کے بعد قیلولہ لینے کی اجازت دی، جبکہ دوسرے کو اگلا ٹاسک دیا۔ اور پھر نتائج کے مطابق جس گروہ نے جھپکی لی تھی،اس نے بہت بہتر طریقے سے سیکھا۔‘ پروفیسر رچرڈ کے مطابق روزانہ دن کے درمیان میں 20 سے 40 منٹ تک سونے کی سفارش کی جاتی ہے۔ نیند کے اس مختصر دور کے باعث آپ کی رات کی نیند میں خلل پڑے گا اس لیے صبح الارم لگائیں، یا کسی کو جگانے کے لیے کہیں۔‘

بہترین غذا کا انتخاب کریں
جو کچھ ہم کھاتے ہیں وہی ہماری ذہنی و جسمانی صحت کو برقرار رکھنے اور خراب کرنے کی زمہ دار ہو سکتی ہے۔ پروفیسر رچرڈ کے مطابق ’الٹرا پروسیسڈ فوڈز(ڈبہ بند غزائیں) اپنے اندر اضافی چکنائی، نمکیات رکھتی ہیں بلکہ ان کو محفوظ بنائے جانے کا عمل ان کے اندر غزائیت کو کم کر کے مضر صحت بنا دیتے ہیں۔ ’ یہ غذائیں یادداشت کے لیے اچھی نہیں ہیں کیونکہ یہ رفتہ رفتہ یادداشت سے متعلق دماغ کے حصے میں خون کی گردش کو کم کرتی ہیں اور ساتھ ہی ہائی بلڈ پریشراور ذیابیطس سے متاثر کرنےکا سبب بن جاتی ہیں اور یہی تمام وجوہات ڈیمنشیا کا باعث بن سکتی ہیں۔‘

FOLLOW US