لاہور (ویب ڈیسک) آئیے پہلے یہ جانتے ہیں کہ اس ”پانچویں نسل“ سے پہلے وار فیئر(طریقِ جنگ) کی ”چار نسلیں“ کون سی تھیں، ان کی عمریں کیا تھیں اور ایک کی موت کب اور دوسری کی پیدائش کب اور کیوں واقع ہوئی۔ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا ہے کہ ”پاکستانی آبادی کی اکثریت ناخواندہ ہے“۔ نامور مضمون نگار اور پاک فوج کے ریٹائرڈ افسر لیفٹیننٹ کرنل (ر) غلام جیلانی خان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔لہٰذا میں سمجھتا ہوں کہ ضروری ہے کہ اس ”اَن پڑھ اکثریت“ کو سمجھانے کا بھی کوئی نہ کوئی بندوبست کیا جائے۔ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ تاریخِ جنگ اتنی ہی قدیم ہے جتنا خود انسان ہے۔
انسان اور جنگ ہمیشہ لازم و ملزوم رہے ہیں۔ انسان کا پہلا ہتھیار اس کا اپنا طاقتور جسم تھا جو کمزور انسان کے جسم کو شکست دے سکتا تھا۔ اس انسانی جسمانی طاقت کے بعد پتھر کے ہتھیار مثلاً اینٹ، روڑا اور کنکر وغیرہ کا استعمال کیا گیا۔ بعدازاں دھات کا زمانہ آیا تو چاقو، چھری،تلوار، خنجر، تیر اور کمان ایجاد ہوئے اور ذرا مزید وقت گزرا تو اس دوڑ میں گھوڑا داخل ہو گیا۔ گھوڑے اور انسان کی رفاقت کا دور ایک طویل دور ہے جس پر تاریخِ جنگ میں بہت سا مواد ملتا ہے۔ نیزہ اور ڈھال گھڑ سوار کے دو کارگر ہتھیار تھے…… انسانی پیدائش سے لے کر رسالے (گھڑ سوار) کی تشکیل تک کے اسی دورِ حرب و ضرب کو ”فرسٹ جنریشن وار فیئر“ کا نام دیا جاتا ہے…… سیکنڈ جنریشن وار فیئر کا آغاز بارود کی ایجاد سے ہوتا ہے۔بارود کی ایجاد بھی تاریخِ جنگ و جدال کا ایک اہم مرحلہ اور موضوع ہے۔ اس کا آغاز بارہویں صدی عیسوی میں اہلِ چین کے ہاتھوں ہوا۔ چنگیز اور ہلاکو کے زمانے تک بارود ایجاد نہیں ہوا تھا۔ اگر ایسا ہوتا تو منگولوں کو قلہ مینار بنانے کی ضرورت نہ تھی۔ بارود فی نفسہ
اپنے اندر ایک خوفناک تباہی کا عنصر رکھتا تھا جو اول اول توپ کی صورت میں ظاہر ہوا اور رائفل اور مشین گن وغیرہ کہیں بعد میں جا کر ایجاد ہوئیں۔ 17ویں صدی عیسوی میں جب افرنگی نے ہندوستان کی سرزمین پر قدم رکھا تو اس کی بحریہ میں توپخانہ بھی موجود تھا۔ بابر نے اگرچہ 1526ء میں پانی پت کی پہلی لڑائی، توپخانے کی مدد سے جیتی لیکن بعد کے ”عظیم مغلوں“ نے توپخانے کی حربی اہمیت کا قطعاً کوئی ادراک نہ کیا۔ اور برصغیر میں مغلوں، مرہٹوں، نظاموں اور سکھوں نے اگر کسی ایک جنگی ہتھیار سے شکست کھائی تو وہ افرنگیوں (دلندیزیوں، پرتگیزیوں، فرانسیسیوں اور برطانویوں) کی مسلح نیوی تھی۔ دخانی بحری جہازوں پر توپ (Cannon) نصب کرکے افرنگی نے ہندوستان کی انفنٹری اور گھڑ سوار کیولری کو شکست فاش دی…… بارودی جنگوں کا یہ عہد 12ویں صدی سے شروع ہو کر 19ویں صدی عیسوی تک رہا اور اسے ”سیکنڈ جنریشن وارفیئر“ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔”تھرڈ جنریشن وار فیئر“ کا آغاز شعبہ ء جنگ میں فضائی قوت کی انڈکشن سے ہوا۔ یہ 17دسمبر 1903ء کا واقعہ ہے۔ امریکہ کے دو بھائی جن کو ”رائٹ برادرز“ (Wright brothers) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ہوائی جہاز کے موجد تھے۔ ہوائی جہاز جسے اول اول ڈاک کی تقسیم کے لئے استعمال کیا گیا تھا، جلد ہی ایک کارگر جنگی ہتھیار بن گیا۔1914ء میں جب پہلی جنگ عظیم شروع ہوئی تو جہاز کی عمر صرف 11برس تھی۔ لیکن اس کم سنی کے باوصف اس جنگ کے دونوں فریقوں (اتحادی اور محوری) نے ہوائی جہاز کو ایک تباہ کن جنگی ہتھیار بنا دیا۔
امریکہ، جرمنی، فرانس، روس اور اٹلی کی افواج میں فضائی قوت کے کئی سکواڈرن استعمال ہوئے۔ بمبرز، انٹرسیپٹرز، فائٹرز اور ٹرانسپورٹرز طیاروں نے پہلی جنگ عظیم میں بہت اہم کردار ادا کیا۔لیکن اس فورس کی اصل ڈویلپمنٹ دو عالمی جنگوں کے درمیان 21برسوں (1918ء تا 1939ء) میں ہوئی اور اس کی انتہا اگست 1945ء میں اس وقت ہوئی جب امریکہ نے اپنے بی۔29 طیاروں کے ذریعے جاپان پر دو ایٹم بم گرائے۔ یہ عالمی جنگ وار فیئر کی ”تیسری نسل“ کا حصہ تھی۔ ان فائری اسلحہ جات سے لڑی جانے والی جنگوں کو کائی نیٹک (Kinetec) وارز بھی کہا جاتا ہے۔ یہ تھرڈ جنریشن وار فیئر ابھی جاری ہے اور امید کی جاتی ہے کہ آنے والے ہر دور میں جاری رہے گی۔ جنگ و جدل کی چوتھی جنریشن کو ”نفسیاتی جنگ و جدل“ بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا آغاز دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کے وزیراطلاعات گوئبلز کے ہاتھوں ہوا۔ گوئبلز کے درج ذیل دو مقولے دنیا کی تمام عسکری درسگاہوں میں پڑھائے جاتے ہیں:1۔ پراپیگنڈے کا مفہوم یہ ہے کہ جھوٹ کو اس تواتر اور تسلسل سے بولو کہ وہ سچ نظر آنے لگے۔2۔ اگر مجھے وسائل دے دیئے جائیں تو میں شیطان کو خدا ثابت کر دوں گا۔نفسیاتی جنگ و جدل (Psy Ops) پر درجنوں نہیں سینکڑوں تصانیف موجود ہیں۔ اس کا آغاز اگرچہ دوسری عالمی جنگ میں ہو گیا تھا لیکن اسے اس جنگ کے خاتمے کے بعد 1945ء سے لے کر موبائل وغیرہ کی ایجاد تک باقاعدہ ایک الگ ”جنریشن آف وار“ کے طور پر یاد کیا جانے لگا……
یہی ”سائیکلولوجیکل وار فیئر“، فورتھ جنریشن وار فیئر کہلاتی ہے……اب آتے ہیں ففتھ جنریشن وار فیئر کی طرف جو آج کے کالم کا اصل موضوع ہے…… ڈاکٹر نعمان نیئر صاحب نے اگر اسے عجیب و غریب کا نام دیا ہے تو یہ واقعی عجیب و غریب تو ہے کہ ہر نئی چیز عجیب و غریب ہوتی ہے لیکن ایسی بھی نہیں کہ اس کی سمجھ نہ آ سکے اور عسکری حلقوں میں اس کی تفہیم کوئی بہت مشکل مرحلہ ہو…… ہر گز نہیں …… ہر فوجی آفیسر اس اصطلاح کو جانتا، سمجھتا اور اپنی تحریر و تقریر میں استعمال کرتا ہے۔ عسکری بریفنگ میں اس کا جب استعمال کیا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ جنگ لی جاتی ہے جس میں سائبر وار، اکنامک وار، سائیکلوجیکل وار، اور ہر وہ حربہ ء جنگ شامل ہوتا ہے،جس میں فزیکل ہتھیاروں کا استعمال نہ ہو۔ دنیا اب جوہری جنگوں سے کنارہ کشی اختیار کرنے کے ”بہانے“ ڈھونڈ رہی ہے اور اسی لئے ہر نان کائی نیٹک جنگ و جدل (Warfare) کو ”ففتھ جنریشن وار فیئر“ کہہ کر پکارتی ہے۔سوشل میڈیا، الیکٹرانک میڈیا، پرنٹ میڈیا، انٹرنیٹ اور اس کی جملہ ذیلی اقسام وغیرہ سب مل کر ففتھ جنریشن وار فیئر کے اوزار (Tools) سمجھے جاتے ہیں۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہماری نسل اور ہماری آنے والی نسلوں میں جدید ٹیکنالوجی کے ان اوزاروں اور ہتھیاروں نے کیا کیا گل کھلائے ہیں۔ جرائم کی شرح میں جو ہوشربا اضافہ ہو رہا ہے اس میں اسی سوشل میڈیا کا حصہ غالب ہے۔ ہم روز بروز اس پر اپنے انحصار میں اضافہ کرتے چلے جاتے ہیں۔ آج جو کچھ میڈیا پر آ رہا ہے، وہ اگر جھوٹ بھی ہے تو اسے سچ سمجھ رہے ہیں۔ ٹی وی پر جو کمرشل چلائے جا رہے ہیں، ان کی عبارات کو غور سے سنیں۔ آپ کو معلوم ہو گا کہ یہ سب کا سب پراپیگنڈا اور مبالغہ ہے۔ ہم نقل کو اصل سمجھنے پر مجبور ہوتے جا رہے ہیں۔ جھوٹ ہو یا سچ جب وہ آپ کے سوشل میڈیا پر آتا ہے تو آپ کے ذہن میں شکوک پیدا کر دیتا ہے اور شکوک کے اس پلندے کو جب ہم کسی عملی جامے میں ملبوس دیکھتے ہیں تو اس شیطان کو بقول گوئبلز دیوتا (یا نعوذ باللہ خدا) سمجھنے لگتے ہیں …… اسی کشاکش کا نام ففتھ جنریشن وار فیئر ہے!……اور ہاں ڈاکٹر صاحب نے اپنے کالم کی ابتدا میں جس تیس سالہ جنگ کا ذکر کرکے اسے ففتھ جنریشن وار فیئر کا آغاز شمار کیا ہے وہ اس حد تک درست ہے کہ اس جنگ سے ”محدود“ اور پھر ”لامحدود“ جنگ و جدال کا ایک طویل سفر شروع ہوا…… کوشش کروں گا کہ قارئین کی خدمت میں اس 30سالہ جنگ اور اس کے مابعدی اثرات کا ایک جائزہ اگلے کالم میں پیش کروں۔(ش س م)