کیا سات پردوں میں اپنا وجود ڈھانپنے والی اور گھنگھرو باندھ کر تماش بینوں کے سامنے رقص کرنے والی دونوں عورتیں ماں بنیں تو ان کے قدموں تلے جنت کا ہونا یقینی ہے؟اگر ایسا ہے تو پیدا کرنے کے فورا‘‘ بعد بچے کو کچرے کے ڈھیر پر پھینک دینے والی ماں جن قدموں سے اس ننھے فرشتے کو روتا بلکتا چھوڑ جائے کیا ان قدموں تلے بھی جنت ہوتی ہےاور پھر کہاں اپنا پیٹ کاٹ کر بچوں کا پیٹ بھرنے والی کردار کی بلندیوں کو چھوتی عظیم ماں اور کہاں پیٹ بھرنے کی خاطر روح کو گِروی رکھ کر خود اپنی اولاد کا جسم بیچنے والی عورت۔۔۔یہ کیسا کُھلا تضاد تھا اور کیا ایسی عورت کو ماں جیسے خوب صورت اور پاکیزہ لفظ سے پکارنا ٹھیک تھا؟ کیا وہ ماں کہلانے کی لائق تھی؟
دل تھا کہ اس ناانصافی پر بھڑک اٹھا تھا اور مجسم سوال بنا ہوا تھا کہ دو مختلف رویوں اور کرداروں کی مالک عورتوں کو ایک ہی منصب پر فائز کر دینا کہاں کا انصاف تھا۔فاخرہ گل کے ناول ’’وہی ایک لمحہ زیست‘‘ سے اقتباس۔۔جبکہ دوسری جانب ایک خبر کے مطابق سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ وہ واحد صحابی ہیں جن کا نام قرآن مجید میں آیا ہے۔ آپ کو بچپن میں اغوا کر کے غلام بنا لیا گیا تھا۔ کئی ہاتھوں سے بکتے ہوئے آپ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں پہنچے۔ اس دوران آپ کے والد کو بھی آپ کی خبر پہنچ گئی۔ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو منہ مانگی رقم کی آفر کر دی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا، “اگر زید تمہارےساتھ جانا چاہے تو میں کوئی رقم نہ لوں گا۔” زید نے اپنے والدین کی بجائے حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے ساتھ رہنے کو ترجیح دی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا برتاؤ اپنے ملازموں کے ساتھ بھی کیسا ہوتا ہوگا۔ اس موقع پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے زید رضی اللہ عنہ کو اپنا منہ بولا بیٹا بنا لیا۔ جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نبوت کا اعلان فرمایا تو حضرت خدیجہ، علی اور ابوبکر رضی اللہ عنہم کے بعد آپ چوتھے شخص تھے جو ایمان لائے۔ طائف کے سفر میں زید حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ تھے۔ جب وہاں کے اوباشوں نے آپ پر سنگ باری کی تو زید نے یہ پتھر اپنے جسم پر روکے۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے آپ کی شادی اپنی پھوپھی زاد بہن زینب رضی اللہ عنہا سے کر دی تھی۔ ان میں نباہ نہ ہو سکا اور طلاق ہو گئی۔ دور جاہلیت کی یہ رسم تھی کہ منہ بولے بیٹوں کا معاملہ سگی اولاد کی طرح کیا جاتا اور ان کی طلاق یافتہ بیویوں سے نکاح حرام سمجھا جاتا۔ اس رسم کے بہت سے سنگین معاشرتی نتائج نکل رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو حکم دیا کہ آپ حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے شادی کر لیں تاکہ اس رسم کا خاتمہ ہو۔ اسی تناظر میں سیدنا زید رضی اللہ عنہ کا ذکر سورۃ احزاب میں آیا ہے۔