لاہور (ویب ڈیسک) صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ داستان ایمان فروشوں کی سلطان صلاح الدین ایوبی کی جنگی مہمات پر لکھا گیا انتہائی سحر انگیز ناول ہے، سلطان صلاح الدین یوسف بن ایوب ایوبی سلطنت کے بانی تھے سلطان 1138ء میں موجودہ عراق کے شہر تکریت میں پیدا ہوئے۔سلطان صلاح الدین نسلاً کرد تھے اور 1138ء میں کردستان کے اس حصے میں پیدا ہوۓ جو اب عراق میں شامل ہے ،شروع میں وہ سلطان نور الدین زنگی کے یہاں ایک فوجی افسر تھے۔
مصر کو فتح کرنے والی فوج میں صلاح الدین بھی موجود تھے اور اس کے سپہ سالار شیر کوہ صلاح الدین کے چچا تھے۔ مصر فتح ہو جانے کے بعد صلاح الدین کو 564ھ میں مصر کا حاکم مقرر کردیا گیا۔ اسی زمانے میں 569ھ میں انہوں نے یمن بھی فتح کرلیا۔ نور الدین زنگی کے انتقال کے بعد صلاح الدین حکمرانی پر فائز ہوۓ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔“تم پرندوں سے دل بہلایا کرو سپاہ گری اس انسان کے لیے ایک حطرناک کھیل ھے جو عورت اور شراب کا دلدادہ ھو۔” یہ تاریح الفاظ سلطان صلاح الدین نے اپنے چچا زاد بھائی حلیفہ الصالح کے ایک امیر سیف الدین کو لکھے تھے، ان دونوں نے صلیبوں کو درپردہ مدد زر و جوھرات کا لالچ دیا اور صلاح الدین ایوبی کو شکست دینے کی سازش کی، امیر سیف الدین اپنا مال و متاع چھوڑ کر بھاگا، اسکے زاتی حیمہ گاہ سے رنگ برنگی پرندے ، حسین اور جوان رقصایئں اور گانے والیاں ساز اور سازندے شراب کے مٹکے برامد ھوئے ، سلطان نے پرندوں گانے والیوں اور سازندوں کو آزاد کردیا اور امیر سیف الدین کو اس مضمون کا حط لکھا. “تم دونوں نے کفار کی پشت پناھی کر کے ان کے ھاتھوں میرا نام و نشان مٹانے کی ناپاک کوشش کی مگر یہ نہ سوچا کہ تمھاری یہ ناپاک کوشیش عالم اسلام کا بھی نام و نشان مٹا سکتی تھیں۔
تم اگر مجھ سے حسد کرتے ھوتو مجھے قتل کرادیا ھوتا ، تم مجھ پر دو قاتلانہ حملے کرا چکے ھو۔ دونوں ناکام ھوے اب ایک اور کوشش کر کے دیکھ لو، ھو سکتا ھے کامیاب ھو جاو۔ اگر تم مجھے یقین دلا دو کہ میرا سر میرے تن سے جدا ھو جاے تو اسلام اور زیادہ سر بلند رھے گا تو رب کعبہ کی قسم میں اپنا سر تمھارے تلوار سے کٹواؤنگا اور تمھارے قدموں میں رکھنے کی وصیت کرونگا میں صرف تمھیں یہ بتادینا چاھتا ھوں کہ کوئی غیر مسلم مسلمان کا دوست نہیں ھو سکتا، تاریح تمھارے سامنے ھے اپنا ماضی دیکھو، شاہ فرینک اور ریمانڈ جیسے اسلام دشمن تمھارے دوست اسلیئے ھیں کہ تم نے انھیں مسلمانوں کے خلاف جنگ میں اترنے کی شہ اور مدد دی ھے۔ اگر وہ کامیاب ھو جاتے تو انکا اگلا شکار تم ھوتے اور اس کے بعد ان کا یہ خواب بھی پورا ھوجاتھا کہ اسلام صفحہ ھستی سے مٹ جائے۔ تم جنگجو قوم کے فرد ھو۔ فن سپاہ گری تمھارا قومی پیشہ ھے۔ ھر مسلمان اللہ کا سپاھی ھے مگر ایمان اور کردار بنیادی شرط ھے۔ تم پرندوں سے دل بہلایا کرو سپاہ گری اس انسان کے لیے ایک خطرناک کھیل ھے جو عورت اور شراب کا دلدادہ ھو۔ میں تم سے درخواست کرتا ھوں کہ میرے ساتھ تعاون کرو اور میرے ساتھ جہاد میں شریک ھوجاو، اگر یہ نہیں کرسکتے تو میری مخالفت سے باز آجاو، میں تمھیں کوی سزا نھی دونگا۔۔۔۔اللہ تمھارے گناہ معاف کریں۔۔۔۔۔ صلاح الدین ایوبی”
ایک یورپی مورح لین پول لکھتا ھے” صلاح الدین کے ھاتھوں جو مال غنیمت لگا اسکا کوی حساب نھی تھا، جنگی قیدی بھی بے اندازہ تھے، سلطان نے تما تر مال غنیمت تین حصوں میں تقسیم کیا، ایک حصہ جنگیں قیدیوں میں تقسیم کر کہ انکو رھا کردیا، دوسرا حصہ اپنے سپاھیوں اور غرباء میں تقسیم کیا، اور تیسرا حصہ مدرسہ نظام المک کو دے دیا، اس نے اسی مدرسے سے تعلیم حاصل کی تھی۔ نہ حود کچھ رکھا اور نہ اپنے کسی جرنیل کو کچھ دیا، اس کا نتیجہ یہ ھوا کہ جنگی قیدی جن میں بھت سے مسلمان تھے اور باقی غیر مسلم ، رھا ھوکر سلطان کے کیمپ میں جمع ھوگیے اور سلطان کی اطاعت قبول کر کہ اپنی حدمات فوج کے لیے پیش کردی ایوبی کی کشادہ ظرفی اور عظمت دور دور تک مشہور ھوگے ۔ اس سے پہلے حسب بن صباح کے پراسرار فرقے فدای جنھیں یورپین مورحین نے قاتلوں کا گروہ لکھا ھے صلاح الدین ایوبی پر دو بارہ قاتلانہ حملے کرچکے تھے لیکن اللہ نے اس اعظیم مرد مجاھد سے بھت کام لینا تھا دونوں بار ایک معجزہ ھوا جس میں یہ مرد مجاھد بال بال بچ گیا سلطان پر تیسرا قاتلانہ حملہ اس وقت ھوا جب وہ اپنے مسلمان بھایئوں اور صلیبوں کی سازش کی چھٹان کو شمشیر سے ریزہ ریزہ کرچکا تھا۔ امیر سیف الدین میدان جنگ سے بھاگ گیا تھا مگر وہ سلطان کے خلاف بعض اور کینہ سے باز نہیں آیا۔ اس نے حسن بن صباح کے قاتل فرقے کی مدد حاصل کی۔
حسن بن صباح کا فرقہ اسلام کی آستین میں سانپ کی طرح پل رھا تھا۔ اس کا تفصیلی تعارف بہت ھی طویل ھے۔ محتصر یہ کہ جس طرح زمین سورج سے دور ھوکر گناھوں کا گہوارہ بن گی ھے، اسی طرح ایک حسن بن صباح نامی ایک شحص نے اسلام سے الگ ھوکر نبیوں اور پیغمبروں والی عظمت حاصل کرنے کا منصوبہ بنایا وہ اپنے آپکو مسلمان ھی کہلاتا رھا اور ایسا گروہ بنالیا جو طلسماتی طریقوں سے لوگوں کا اپنا پیروکار بناتا ، اس مقصد کے لیے اس گروہ نے نہایت حیسن لڑکیاں نشہ آور جڑی بوٹیاں ھیپناٹزم اور چرب زبانی جیسے طریقے اپناے، بہشت بنائی جس میں جاکر پتھر بھی موم ھو جاتے تھے اپنے مخالفین کو قتل کرانے کے لیے ایک گروہ تیار کیا، قتل کے طریقے خفیہ اور پر اسرار ھوتے تھے، اس فرقے کے افراد اس قدر چلاک ذہیں اور نڈر تھے کہ بھیس بدل کر بڑے بڑے جرنیلوں کے باڈی گارڈ بن جاتے تھے اور جب کوئی پراسرار طریقے سے قتل ھوجاتا تو قاتلوں کا سراغ ھی نہیں مل پاتا، کچھ عرصہ بعد یہ فرقہ “قاتلوں کا گروہ” کے نام سے مشہور ھوا یہ لوگ سیاسی قتل کے ماھر تھے زھر بھی کیا کرتے تھے، جو حسین لڑکیوں کے ھاتھوں شراب میں دیا جاتا تھا بہت مدت تک یہ فرقے اسی مقصد کے لیے استعمال ھوتا رھا۔۔ اسکے پیروکار “فدائی” کہلاتے تھے۔سلطان صلاح الدین ایوبی کو نہ تو لڑکیوں سے دھوکہ دیا جاسکتا تھا اور نہ ھی شراب سے۔ وہ ان دونوں سے نفرت کرتا تھا ، سلطان کو اس طریقے سے قتل نہیں کیا جاسکتا تھا۔
اس کو قتل کرنے کا یہی ایک طریقہ تھا کہ اس پر قاتلانہ حملہ کیا جائے ، اسکے محافظوں کی موجودگی میں اس پر حملہ نہیں کیا جاسکتا تھا، دو حملے ناکام ھو چکے تھے۔ اب جبکہ سلطان کو یہ توقع تھی کہ اسکا چچازاد بھائی الصالح اور امیر سیف الدین شکست کھا کر توبہ کر چکے ھونگے انھوں نے انتقام کی ایک اور زیر زمین کوشش کی۔ صلاح الدین نے اس فتح کا جشن منانے کے بجائے حملے جاری رکھے اور تین قصبوں کو قبضے میں لیا، ان میں غازہ کا مشہور قصبہ تھا، اسی قصبے کے گردونواح میں ایک روز سلطان صلاح الدین ایوبی ، امیر جاوالاسدی کے خیمے میں دوپہر کے وقت عنودگی کے عالم میں سستا رھے تھے، سلطان نے وہ پگڑی نہیں اتاری تھی جو میدان جنگ میں سلطان کے سر کو صحرا کی گرمی اور دشمن کے تلوار سے بچا کر رکھتی تھی۔ خیمے کے باھر اسکے محافظوں کا دستہ موجود اور چوکس تھا، باڈی گارڈز کے اس دستے کا کمانڈر ذرا سی دیر کے لیے وھاں سے چلا گیا، ایک محافظ نے سلطان کے خیمے میں گرے ھوے پردوں میں سے جھانکا، اسلام کے عظمت کے پاسبان کی آنکھیں بند تھیں اور پیٹھ کے بل لیٹا ھوا تھا، اس محافظ نے باڈی گارڈز کی طرف دیکھا، ان میں سے تین چار باڈی گارڈز نے اسکی طرف دیکھا، محافظوں نے اپنی آنکھیں بند کر کے کھولیں ( ایک خاص اشارہ) ۔۔ تین چار محافظ اٹھے اور دو تین باقی باڈی گارڈز کو باتوں میں لگالیا، محافظ خیمے میں چلا گیا۔۔۔
اور خنجر کمر بند سے نکالا۔۔۔دبے پاؤں چلا اور پھر چیتے کی طرح سوئے ھوئے سلطان صلاح الدین ایوبی پر جست لگائی۔ خنجر والا ھاتھ اوپر اٹھا۔۔۔۔۔۔۔۔عین اسی وقت سلطان نے کروٹ بدلی، یہ نہیں بتایا جاسکتا کہ حملہ آور خنجر کہاں مارنا چاھتا تھا، دل میں یا سینے میں۔۔۔ مگر ھوا یوں کہ خنجر سلطان کی پگڑی کے بالائی حصے میں اتر گیا، اور سر بال برابر جتنا دور رھا اور پگڑی سر سے اتر گئی ۔ سلطان صلاح الدین بجلی کی تیزی سے اٹھا، اسے سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ یہ سب کیا ھے ۔اس پر اس سے پہلے دو ایسے حملے ھو چکے تھے۔ اس نے اس پر بھی اظہار نھی کیا کہ حملہ آور خود اسکے باڈی گارڈ کی وردیوں میں تھے، جسے اس نے خود اپنے باڈی گارڈز کے لیے منتخب کیا تھا، اس نے ایک سانس برابر بھی اپنا وقت ضائع نہ کیا ۔ حملہ آور اپنا خنجر پگڑی سے کھینچ رھا تھا۔ ایوبی کا سر ننگا تھا۔۔ اس نے بھر پور طاقت سے ایک گھونسہ حملہ آور کی ٹھوڑی پر دے مارا۔ ھڈی ٹوٹنے کی آواز آئی۔ حملہ آور کا جبڑا ٹوٹ چکا تھا، وہ پیچھے کی طرف گرا اور اسکے منہ سے ھیبتناک آواز نکلی۔اسکا خنجر ایوبی کی پگڑی میں رہ گیا تھا، ایوبی نے اپنا خنجر نکال لیا تھا، اتنے میں دو محافظ اندر آئے ، ان کے ھاتھوں میں تلواریں تھی، سلطان صلاح الدین نے انھیں کہا کہ ان کو زندہ پکڑو۔ لیکن یہ دونوں محافظ سلطان صلاح الدین پر ٹوٹ پڑے، سلطان صلاح الدین نے ایک خنجر سے دو تلواروں کا مقابلہ کیا۔یہ مقابلہ ایک دو منٹ کا تھا۔ کیونکہ تمام باڈی گارڈز اندر داحل ھوے تھے، سلطان صلاح الدین یہ دیکھ کر حیران تھا کہ اسکے باڈی گارڈز دو حصوں میں تقسیم ھوکر ایک دوسرے کو لہولہان کر رھے تھے، اسے چونکہ معلوم ھی نہ تھا کہ اس میں اسکا دوست کون ھے اور دشمن سو وہ اس معرکہ میں شامل ھی نہیں ھوا، کچھ دیر بعد باڈی گارڈز میں چند مارے گیے کچھ بھاگ گیے کچھ زحیمی ھوے، تو انکشاف ھوا کہ یہ جو دستہ سلطان صلاح الدین کی حفاظت پر مامور تھا اس میں سات فدائی تھے جو سلطان صلاح الدین کو قتل کرنا چاھتے تھے، انھوں نے اس کام کے لیے صرف ایک فدائی کو اندر خیمے میں بھجھا تھا، اندر صورت حال بدل گی تو دوسرے بھی اندر چلے گیے، اصل محافظ بھی اندر چلے گیے وہ صورت حال سمجھ گیے ، سو سلطان صلاح الدین بچ گیا۔سلطان صلاح الدین نے اپنے پہلے حملہ آور ھونے والے کی شہ رگ پر تلوار رکھ کر پوچھا ، کہ وہ کون ھے اور اسکو کس نے بیجھا ھے۔ سچ کہنے پر سلطان نے اسکے ساتھ جان بحشی کا وعدہ کیا۔ اس نے کہا کہ وہ ” فدائی ” ھے اور اسکو کیمیشتکن ) جسے بعض مورخین نے گمشتگن بھی لکھا ھے( نے بھیجھا ھے کیمیشتکن الصالح کے قلعے کا ایک گورنر تھا. (ش س م)