حضور نبی کریمﷺ کے زمانہ میں جب ملک یمن پر چڑھائی کی گئی، اور وہاں سے کئی قیدی حضور نبی کریمﷺ کی خدمت میں لائے گئے، تو ان قیدیوں میں قبیلہ بنی طے کے سردار حاتم طائی کی بیٹی بھی تھی۔ جب ان قیدیوں کے متعلق فیصلہ کرنے کے لئے حضور نبی کریمﷺ نے مجلس بلائی تو حاتم طائی کی بیٹی نے حضورﷺ سے کہا کہ، ‘میں بنی طے کے سردار
حاتم طائی کی بیٹی ہوں اور میرا باپ اپنی سخاوت میں بے مثل تھا۔ کوئی سائل میرے باپ کے دروازے سے خالی نہ لوٹتا تھا’۔ حضور نبی کریمﷺ نے جب اس لڑکی کی گفتگو سنی تو فرمایا کہ یہ تمام صفات مسلمانوں کی ہیں، پھر آپﷺ نے اس لڑکی کی باعزت رہائی کاحکم دے دیا۔ وہ لڑکی آزاد کردی گئی، اس لڑکی نے کہا کہ میں اس آزادی پر راضی نہیں کہ میں تو آزاد ہوجاؤں مگر میرے قبیلے کے دیگر لوگ قید ہوں۔حضورنبی کریم ﷺ نے جب اس لڑکی کی بات سنی تو فرمایا کہ تمام قیدیوں کو رہا کردیا جائے، اور پھر وہ تمام قیدی باعزت واپس ملک یمن روانہ ہوگئے۔ حضرت شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ اس حکایت میں بیان کرتے ہیں کہ دین اسلام بھلائی اور روداری کادرس دیتا ہے، اور نیکی وبھلائی کے کام کرنے والوں کی حوصلہ افزائی اور ان کی قدر کرتا ہے۔ حضور نبی کریمﷺ کو جب حاتم طائی کی سخاوت کے متعلق علم ہوا تو آپ ﷺ نے اس کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ تمام کام مسلمانوں کے ہیں، جنہیں حاتم طائی کرتا رہا۔ آپﷺ نے حاتم طائی کی نیک نیتی کی وجہ سے اس کے قبیلے کے تمام افراد کو رہا کردیا اور واضح کردیا کہ دین اسلام میں کسی کو اس کے نسب شرف اور رنگ ونسل کی بنیاد پر فوقیت نہیں، بلکہ اگر کسی کو فوقیت حاصل ہے تو وہ اس کے تقویٰ، پرہیز گاری اور اس کے نیک اعمال کی وجہ سے ہے۔