Monday November 25, 2024

وہ عیسائی راہب جس نے حضرت امام حسینؓ کے سر مبارک کا دیدار کرنے کے لئے اپنی ساری جمع پونجی یزیدی لشکر کو دے دی اور سر مبارک کو غسل دیکر ساری رات گود میں لیکر روتا رہا ،پھر کیا واقعہ رونما ہوا

غم حسینؓ میں دنیا بھر کے مذاہب میں آنکھیں نم ہوتیں اور دلوں پر افسردگی چھا جاتی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ حسینؓ سب کے ہیں ،مسلمانوں کے علاوہ ہندو عیسائی ،بدمت اور یہودیوں میں بھی ایسے حقیقت پسند لوگ موجود رہے ہیں جنہوں نے حضرت امام حسینؓ کی شان میں کلمہ بلند کیا اور نوحے لکھے ہیں ۔عیسائیوں کی حضرت امام حسینؓ سے عقیدت ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ایرانی محقق محمد رضا زائری نے اپنی کتاب میں امام حسینؓ سے پولس سلامہ جیسے عیسائی محقق کی عقیدت و محبت کا ذکر کرتے ہوئے خود ان ہی کی زبانی لکھاہے ’’ میں بچپنے سے قرآن مجید اور تاریخ اسلام کا شیفتہ تھا اور جب بھی شہادت حضرت علیؓ اور ان کے فرزند امام حسین علیھماالسلام کی بات آتی تھی تو حق کی نصرت اور باطل کے خلاف جنگ کا شعلہ

میرے سینے میں روشن ہوجاتا۔ ممکن ہے کوئی یہ اعتراض کرے کہ ایک مسیحی کو اسلام کی تاریخ بیان کرنے کا کیا حق پہنچتا ہے تو میں یہی کہوں گا کہ میں ایک عیسائی ضرور ہوں لیکن تنگ نظر عیسائی نہیں ہوں‘‘سلامہ نے ایک منظوم کلاممیں واقعہ کربلا ، امام حسینؓ کی تحریک کے آغاز اور اس تحریک کے مختلف مراحل اور حضرت امام حسینؓ کی شہادت کو تفصیل سے بیان کیا ہے اور لکھتے ہیں کہ حسینؓ تیرے غم نے مجھ مسیحی کوبھی رلادیا دیا اور آنسوؤں کے قطرے میرے آنکھوں سے جاری ہوئے اور تابندہ ہوگئے۔ ہرگز اس شخص کی کیفیت جو دور سے آگ کا نظارہ کرتا ہے اس جیسی نہیں ہوسکتی جو خود آگ میں جل رہا ہے۔ چوتھی صدی ہجری کے محدث حضرت محمد بن حبان تمیمی دارمیؒ نے اپنی کتب ’’الثقات اور اسیرۃ‘‘ میں بھی ایک عیسائی راہب کے بارے میں لکھا ہے کہ اس نے جب حضرت امام حسینؓ کے سر انور پر تجلیات دیکھیں تو اس نے اپنی ساری جمع پونجی دیکر سر انور کا رات بھر دیدارکیا اور مسلمان ہوگیا تھا ۔ ابن حبان لکھتے ہیں کہ عبید اللہ بن زیاد نے اہل بیت کرام کی سراپا عفت خواتین اور لاڈلے بچوں کے ساتھ امام حسین رضی اللہ عنہ کے سرانور کو ملک شام لے جانے کا حکم دیا۔ جب بھی قافلہ والے کسی مقام پر پڑاؤ ڈالتے تو امام حسینؓ کے سرانور کو صندوق سے نکالتے اور معاذ اللہ ایک نیزہ پر رکھتے اور کوچ کرنے تک اس کی حفاظت کرتے، پھر روانگی کا موقع ہوتا تو سرانور کو صندوق میں رکھتے اور روانہ ہوجاتے۔ اس طرح وہ لوگ ایک ایسے مقام پر پہنچے جہاں عیسائی عبادت خانہ تھا۔اس وقت وہاں ایک راہب موجود تھا۔اپنے معمول کے مطابق ظالموں نے امام عالی مقامؓ کے سرانور کونیزہ پر رکھا اور عبادت خانہ کی

کسی جگہ نیزہ لگادیا۔ عبادت خانہ میں رہنے والے عیسائی نے رات میں دیکھا کہ عبادت خانہ سے آسمان کی طرف عظیم الشان نور بلند ہورہا ہے۔ راہب نے فوراً ظالموں کے پاس آکر کہا’’ تم کون ہو اور یہ سرانور کس کا ہے؟‘‘ ان لوگوں نے کہا’’ ہم اہل شام ہیں اور یہ سر امام حسینؓ کا ہے‘‘ اس نے کہا’’ تم کیسی بدبخت قوم ہو، قسم بخدا ! اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسل مبارک کا کوئی فرد اب موجود رہتا تو ہم اس کی ایسی تعظیم کرتے کہ اس کو اپنی آنکھوں پر رکھتے‘‘ پھر کہا’’ اے لوگو! مجھے دس ہزار دینار میرے آباء و اجداد سے وراثت میں ملے ہیں، اگر میں دس ہزار دینار تمہیں دے دوں تو کیا سرانور آج رات رکھنے کیلئے مجھے دو گے؟‘‘ یزیدیوں نے کہا’’ کیوں نہیں‘‘ پس عیسائی راہب نے دینار کی تھیلی انڈیل

دی۔ ان لوگوں نے دینار گن کر تھیلی میں رکھ لئے اور اس پر مہر لگا کر صندوق میں محفوظ کرلئے، پھر سرانور کو عیسائی راہب کی طرف بڑھادیا۔ راہب نے نہایت تعظیم کے ساتھ سرانور لے کر اس کو غسل دیا اور اپنی گود میں رکھ کر رات بھر روتا رہا ۔جب صبح کا وقت قریب ہوا تو کہا’’ اے سرانور! میں اپنے آپ ہی پر قابو رکھتا ہوں اور گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور آپؓ کے نانا حضرت محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں‘‘ یہ کہہ کر مسلمان ہوا اور امام حسینؓ کی غلامی میں شامل ہوا ۔پھر سرانور کو ان کے حوالہ کیا، ان لوگوں نے سرانور دوبارہ صندوق میں رکھا اور روانہ ہوگئے۔ جب دمشق کے قریب پہنچے تو کہنے لگے کہ ہم دس ہزار دینار آپس میں تقسیم کرلیتے ہیںَ اگر یزید دیکھ لے گا تو ہم سے چھین

لے گا، چنانچہ صندوق کھول کر دینار کی تھیلی جیسے ہی کھولی تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہ دینار ٹھیکری بن چکے ہیں اور اسی وقت گلی کی ایک جانب سورہ ابراھیم کی یہ آیت لکھی ہوئی پائی۔ ترجمہ’’ ظالم جو کچھ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کو اس سے ہرگز بے خبر مت سمجھو۔ ‘‘ اور دوسری جانب سورۃ الشعراء کی یہ آیت لکھی دیکھی ’’ ترجمہ: عنقریب ظلم کرنے والے جان لیں گے کہ وہ کیسی بری جگہ لوٹیں گے‘‘ یہ واقعہ دیکھ کر بعض لوگوں نے توبہ کی اور بعض اسی حال پر قائم رہے ۔

FOLLOW US