حیدر آباد (ویب ڈیسک ) یہ 1968ء یا شاید 1969ء کی بات ہے ذوالفقار علی بهٹو اندرون سندھ کسی علاقے کا دورہ کر کے اپنے گهر لاڑکانہ واپس جا رہے تهے۔اس وقت انہیں شدید بخار تھا اور ان کی گاڑی ممتاز بھٹوچلا رہے تهے۔شہداد کوٹ اور قمبر کے قریب ایک مزار پر بیٹھے فقیروں، موالیوں اور نشیئوں کو ان کی آمد کا پتہ چلا تو انہوں نے بھٹو کی گاڑی کو
وارہ پل کے مقام پر گهیر لیا۔ممتاز بھٹونے لاکھ سمجھانے کی کوشش کی کہ بھٹو صاحب کو بخار ہے انہیں جانے دیں مگر وہ نہ مانے اور بھٹو کو اپنے ساتھ آستانے پر لے جانے پر بضد رہے۔ذوالفقار علی بھٹو نے ان کی بات مان لی اور ساتھ چلے گئے۔وہاں فقیروں، موالیوں اور نشئیوں نےبھٹو کو اپنے ساتھ چرس اور هنگ پینے کی پیشکش کی۔بھٹو نے ان سے کہا کہ وہ انہیں بس چائے پلا دیں۔چنانچہ ان فقیروں نے گڑ کی چائے بنا کر بھٹو صاحب کو پیش کی۔اسی دوران ایک فقیر نے بڑے بڑے رنگ برنگے منکوں والا مخصوص ہار اپنے گلے سے اتار کر بھٹو صاحب کے گلے میں ڈال دیا۔یوں بھٹو تیز بخار کی حالت میں کچھ دیر ان فقیروں کے ساتھ بیٹھے رہے اور پھر اپنے گھر لاڑکانہ چلے گئے۔پیپلزپارٹی ان فقیروں اور موالیوں کو شاید مدت ہوئی فراموش کر چکی ہے تاہم ان لوگوں نے آج بھی بھٹو کو دِلوں میں بسایا ہوا ہے۔