زیرو پوائنٹ (جاوید چوہدری) وزیراعظم راجیو گاندھی نہرو خاندان کی تیسری نسل تھے‘ یہ اندرا گاندھی کے قتل کے بعد کانگریس کے سربراہ اور بھارت کے وزیراعظم بنے‘ بہرامنام راجیو گاندھی کے خصوصی مشیر تھے‘ راجیو گاندھی نے 1987ء میں راجستھان کی سرحد پر فوج تعینات کر دی‘ بھارتی فوج جنگ کیلئے تیار کھڑی تھی‘ وزیراعظم کے اشارے کی دیر تھی اور بھارتی فوج پاکستان پر حملہ کر دیتی‘ ان دنوں پاکستان کی کرکٹ ٹیم انڈیا کے دورے پر تھی‘ پاکستان اور انڈیا کے درمیان جے پور میں ٹیسٹ جاری تھا‘ پاکستان اور بھارت کے درمیان خوفناک ٹینشن تھی‘ جنگ کسی بھی
وقت چھڑ سکتی تھی لیکن پھر اچانک ایک عجیب واقعہ پیش آیا‘ جنرل ضیاء الحق اپنے صدارتی جہاز میں سوار ہوئے اور بھارت کی طرف سے دعوت کے بغیر دہلی روانہ ہو گئے‘ جنرل صاحب کرکٹ میچ دیکھنے انڈیا گئے‘ جنرل ضیاء کی اس غیر سفارتی حرکت نے بھارت میں سنسنی پھیلا دی‘ راجیو گاندھی پاکستانی صدر سے ملاقات نہیں کرنا چاہتے تھے لیکن کابینہ اور اپوزیشن نے انہیں دہلی ائیرپورٹ جانے اور جنرل ضیاء الحق کا استقبال کرنے پر مجبور کر دیا‘ اس کے بعد کیا ہوا‘ یہ آپ بہرامنام کی زبانی ملاحظہ کیجئے۔ ’’کابینہ اور اپوزیشن لیڈروں نے راجیو گاندھی کو سمجھایا‘ آپ اگر پاکستانی صدر کے استقبال کیلئے ائیرپورٹ نہیں جائیں گے تو عالمی سطح پر بھارت کی بہت بے عزتی ہو گی چنانچہ راجیو گاندھی ہمارے اصرار پر نیو دہلی ائیرپورٹ پہنچ گئے‘پاکستانی صدر طیارے سے اترے‘ راجیو نے جنرل ضیاء سے ہاتھ ملایا لیکن اس نے جنرل ضیاء الحق کے چہرے کی طرف نہیں دیکھا‘ راجیو نے ہاتھ ملاتے ہوئے مجھے حکم دیا‘ بہرامنام جنرل صاحب میچ دیکھنے آئے ہیں‘ انہیں فوراً روانہ ہو جانا چاہیے‘ آپ ان کے ساتھ جاؤ اور ان کا خیال رکھنا‘ یہ جنرل ضیاء الحق کی سیدھی سادی بے عزتی تھی لیکن میں جنرل ضیاء کا رد عمل دیکھ کر حیران رہ گیا‘ وہ نہ جانے کس مٹی کے بنے ہوئے تھے‘ وہ اس بے عزتی کے باوجود مسکراتے رہے‘ جنرل ضیاء الحق جے پور کیلئے روانہ ہونے لگے تو وہ بھارتی وزیراعظم کی طرف دیکھ کر مسکرائے اور نہایت ہی ٹھنڈے لہجے میں بولے‘ مسٹر راجیو !آپ پاکستان پر حملہ کرنا چاہتے ہیں‘ آپ ضرور کریں لیکن آپ ایک بات یاد رکھئے گا‘ اس حملے کے بعد دنیا ہلاکو خان اور چنگیز خان کو بھول جائے گی‘ یہ صرف راجیو گاندھی اور ضیاء الحق کو یاد رکھے گی کیونکہ یہ روایتی جنگ نہیں ہوگی‘ یہ نیو کلیئر وار ہو گی اور جنگ میں ہو سکتا ہے پورا پاکستان تباہ ہو جائے مگر اس کے باوجود دنیا میں مسلمان رہیں گے
لیکن آپ یہ یاد رکھنا اس جنگ کے بعد دنیا میں کوئی ہندو نہیں بچے گا‘‘۔ بہرامنام کے بقول ’’یہ فقرے بولتے وقت ضیاء الحق کی آواز اور آنکھوں میں اتنی سختی اور اتنا عزم تھا کہ وہ مجھے اس وقت دنیا کے خطرناک ترین شخص دکھائی دیئے‘ راجیو گاندھی کی پیشانی پر پسینہ آ گیا جبکہ میری ریڑھ کی ہڈی میں سنسنی پھیل گئی‘ جنرل ضیاء الحق نے یہ فقرے بڑی ہی سنجیدگی سے کہے‘ وہ اس کے بعد مسکرائے اور مجھے اور راجیو گاندھی کو چھوڑ کر وہاں موجود تمام لوگوں کے ساتھ بڑے تپاک سے ہاتھ ملایا‘ وہ بھارتی وزیراعظم کو جوہری جنگ کی دھمکی دینے کے باوجود بہت خوش اور ہلکے پھلکے موڈ میں دکھائی دے رہے تھے‘ میں ان کے اعصاب اور اداکاری پر حیران ر ہ گیا‘‘۔ بہرامنام کے تاثرات سو فیصد درست تھے‘ جنرل ضیاء الحق کو اللہ تعالیٰ نے انتہائی مضبوط اعصاب‘ اپنی اندرونی کیفیات کو چھپانے‘ اداکاری اور انکساری کی بے پناہ صلاحیتوں سے نواز رکھا تھا‘ یہ دوسروں کواپنے فیصلوں کی کانوں کان خبر نہیں ہونے دیتے تھے‘ جنرل ضیاء الحق کے اعصاب کس قدر مضبوط تھے‘آپ مزید تین واقعات ملاحظہ کیجئے‘ جنرل ضیاء الحق نے 5 جولائی 1977ء کو مارشل لاء لگایا‘ یہ مارشل لاء کی رات تک وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو سے ملتے رہے اور ذوالفقار علی بھٹو جیسا شاطر اور اڑتی چڑیا کے پر گننے والا شخص بھی جنرل ضیاء الحق کی نیت نہ بھانپ سکا‘ بھٹو صاحب جنرل ضیاء الحق سے اس قدر مطمئن تھے کہ 5 جولائی کی رات جب فوج وزیراعظم ہاؤس میں داخل ہوئی تو بھٹو صاحب نے جنرل ضیاء الحق کو فون کیا اور ان سے کہا ’’ ضیاء مجھے گھر کے اندر فوجی نظر آ رہے ہیں‘ چیک کرو یہ کون لوگ ہیں‘‘ دوسرا واقعہ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کی رات تھی‘ جنرل ضیاء الحق نے 3 اپریل 1979ء کے دن بھٹو صاحب کو پھانسی دینے کا حکم دیا‘ یہ اس حکم کے باوجود معمول کے مطابق کام کرتے رہے‘ رات کو گھر گئے‘ کھانا کھایا‘ بیگم صاحبہ کے ساتھ روٹین کی گفتگو کی اور سو گئے‘ بیگم صاحبہ تک کو ان کے فیصلے کی بھنک نہیں پڑی‘ اگلی صبح چار اپریل کو وزارت خارجہ میں میٹنگ تھی‘ جنرل ضیاء الحق مقررہ وقت پر میٹنگ کیلئے پہنچے‘ کرسی صدارت پر بیٹھے اور بڑے اطمینان سے کہا ’’ میں میٹنگ سے پہلے ایک اناؤنسمنٹ کرنا چاہتا ہوں‘ آج صبح عدالت کے حکم پر سابق وزیراعظم مسٹر ذوالفقار علی بھٹو کو راولپنڈی جیل میں پھانسی دے دی گئی ہے‘ ان کی میت ان کے آبائی گاؤں گڑھی خدا بخش میں پورے اعزاز کے ساتھ دفن ہو چکی ہے‘ آپ لوگ ایجنڈا کھولیں اور میٹنگ شروع کریں‘‘ یہ اعلان سن کر میٹنگ میں موجود تمام لوگوں کے چہروں کا رنگ اڑ گیا اور ٹانگیں کانپنے لگیں مگر جنرل ضیاء الحق پورے اطمینان سے ایجنڈا ڈسکس کرتے رہے ‘ انہوں نے اس کے بعد بھٹو کے بارے میں منہ سے ایک لفظ نہیں نکالا‘ آپ تیسرا واقعہ بھی ملاحظہ کیجئے‘ ضیاء الحق نے 27 مئی 1988ء کی سہ پہر محمد خان جونیجو کی حکومت برطرف کر دی‘ جنرل
ضیاء الحق نے اس سے ایک دن بعد چین کے دورے پر جانا تھا‘ جنرل ضیاء الحق 27 مئی کا سارا دن چین کے دورے پر بریفنگ لیتے رہے‘ وزیر خارجہ صاحبزادہ یعقوب علی خان اور وزارت خارجہ کے اعلیٰ حکام جنرل صاحب کو آرمی ہاؤس راولپنڈی میں چین کے بارے میں بریف کرتے رہے‘ جنرل ضیاء الحق نے دورے کے ایک ایک نقطے کے بارے میں بریفنگ لی‘ میٹنگ ختم ہوئی تو جنرل صاحب نے ڈی جی ایسٹ ایشیا سے پوچھا ’’ میں نے کل شام بیجنگ میں جو تقریر کرنی ہے‘ آپ نے وہ پرنٹ کروا لی‘‘ ڈی جی نے جواب دیا ’’سر تقریر پرنٹنگ پریس جا چکی ہے‘ میں کل صبح اس کی کاپیاں ساتھ لے کر آؤں گا‘‘ جنرل ضیاء نے ان کی تعریف کی اور دن کے تین بجے وزیر خارجہ اور ڈی جی ایسٹ ایشیا کو رخصت کیا اور دو گھنٹے بعد محمد خان جونیجو کی حکومت برطرف کرنے کا اعلان کر دیا‘ شام چھ بجے صدر کے ملٹری سیکرٹری بریگیڈیئر خاور نے وزیر خارجہ اور ڈی جی ایسٹ ایشیا کو فون کیا اور انہیں بتایا ’’صدر کل چین نہیں جا سکیں گے‘ آپ چینی حکومت سے معذرت کر لیں‘‘ آپ جنرل ضیاء الحق کے اعصاب اور باتوں کو خفیہ رکھنے کی صلاحیت ملاحظہ کیجئے‘ وہ محمد خان جونیجو کی حکومت کے خاتمے کا پورا منصوبہ بنا چکے تھے‘ وہ جانتے تھے‘ وہ کل چین نہیں جا سکیں گے لیکن اس کے باوجود انہوں نے چین کے دورے پر چار گھنٹے میٹنگ کی اور صاحبزادہ یعقوب علی خان سمیت وزارت خارجہ کے تمام جغادریوں کو ایک لمحے کیلئے یہ احساس نہیں ہونے دیا یہ کل چین نہیں جائیں گے‘ یہ تمام لوگ اپنے سوٹ کیس پیک کر رہے تھے اور جنرل ضیاء جونیجو حکومت کی برطرفی کا پروانہ تیار کر رہے تھے ‘ آپ کو زندگی میں شاید ہی اتنے مضبوط اعصاب کا کوئی اور شخص‘ کوئی اور لیڈر ملے۔ میاں نواز شریف جنرل ضیاء الحق کے سیاسی وارث ہیں‘ جنرل ضیاء الحق میاں صاحب کو سیاست میں بھی لے کر آئے اور یہ انہیں وزیراعظم بھی بنانا چاہتے تھے لیکن میاں نواز شریف کیونکہ اس وقت نو آموز تھے‘ یہ سیاسی داؤ پیچ سے واقف نہیں تھے چنانچہ جنرل صاحب نے انہیں سیاسی ٹریننگ میں ڈال دیا‘ جنرل ضیاء الحق میاں شہباز شریف پر بھی مہربان تھے‘ میاں شہباز شریف ان دنوں لاہور چیمبر آف کامرس کے صدر تھے‘ جنرل ضیاء الحق انہیں بھی صدارتی دوروں میں ساتھ لے کر جاتے تھے‘ میاں برادران نے جنرل ضیاء الحق سے بہت کچھ سیکھا‘ میاں نواز شریف میں جنرل ضیاء الحق جیسی سادگی اور انکسار بھی ہے‘ یہ لوگوں سے جھک کر ملتے ہیں‘ یہ جنرل ضیاء الحق کی طرح گاڑی تک چھوڑنے بھی جاتے ہیں‘ یہ مخاطب کی بات بھی غور سے سنتے ہیں اور یہ جنرل ضیاء الحق کی طرح ملنے والے کا دل بھی موہ لیتے ہیں لیکن ان تمام خوبیوں کے باوجود میاں نواز شریف کے اعصاب مضبوط نہیں ہیں‘ یہ
دل کی بات دل میں بھی نہیں رکھ پاتے‘ یہ ہر ملنے والے سے مشورہ کرتے ہیں اور میاں صاحب کے سوالات ان کا مانی الضمیر‘ ان کی پلاننگ دوسرے لوگوں کے سامنے کھول کر رکھ دیتے ہیں۔