موبائل فون کے اِن باکس میسج میں رکھی اِس تحریر نے بوڑھے باپ کے اندر بیٹھے تجربہ کار فوجی کو جگا دیا جو کئی برس پہلے اپنے کندھوں پر چمکتے تاروں کو نکال کر جواں سال بیٹے کی خاکی وردی پر ٹانک چکا تھا۔ اْس کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ پھیل گئی کیوں کہ اْسے خبر تھی کی اْس کا بیٹا جب بھی کسی آپریش پر روانہ ہونے والا ہوتا تو ایسا ایک میسج کر دیا کرتا تھا تاکہ اْس کے پٹھوں میں پڑی دعاؤں کا بار بڑھتا رہے
اور وہ سینہ تان کر آگے ہی آگے چلتا رہے۔پھر دو روز موبائل نے مکمل خاموشی میں بسر کئے لیکن تیسرے دن اچانک اْس کی اطلاعی گھنٹی جاگ اْٹھی اور اسکرین پر ایک انجانا نمبر چمکنے لگا۔بابا نے لپک کر فون اْٹھایا اور رابطہ ہوتے ہی دوسری جانب سے کہا گیا۔’’ سر! میں میجر جہانزیب کا یونٹ آفیسر بات کر رہا ہوں۔۔۔آپ کے بیٹے ایک آپریشن میں دلیری سے لڑتے ہوئے شہید ہو گئے ہیں‘‘۔چند ثانیے کے توقف کے دوران ہی بوڑھے باپ نے کھونٹی پر لٹکی وردی تن پر ڈالی اور کمال حوصلے سے گویا ہوا ’’الحمدللہ! آج میں سرخرو ہوا کہ میرا بیٹا بھی شہیدوں کی اْس قبیل میں شامل ہو گیا جو تب وتابِ جاودانہ کے حقدار ٹھہرائے گئے ہیں‘‘ لیفٹیننٹ کرنل ریٹائرڈ ملک نور محمد جنہوں نے اپنی دو جوانیاں پاک فوج میں گزاریں، پہلی بار سیکنڈ لیفٹیننٹ نور کے روپ میں اور دوسری سیکنڈ لیفٹیننٹ جہانزیب کے روپ میں اوردونوں ہی اپنے پاکستان کی آن بان کی خاطر قربان کر ڈالیں، ایک غازی بن کر اور دوسری شہید ہوکر۔شہادت سے چند دن پہلے ہی میجر جہانزیب عدنان کی یونٹ کو حکم مل چکا تھا کہ علاقے میں موجود دہشت گردوں کے چند ساتھی کسی بڑی کارروائی کی تیاری میں ہیں جن کی بروقت سرکوبی سے معصوم لوگوں کی جانوں کو محفوظ بنایا جانا بہت ضروری ہوگا۔’’سر! میں خود جاتا ہوں، چند گھنٹوں کی بات ہے۔۔۔ آپ کو آل اوکے کی رپورٹ دیتا ہوں‘‘۔ ہمیشہ کی طرح آج بھی میجر جہانزیب نے اپنے کمانڈنگ آفیسر کے سامنے خود کو والنٹیئرکرتے ہوئے کہا۔سب جانتے ہیں کہ وہ ایسا ہی سپاہی تھا جو ہر میدان میں اپنا آپ پیش کردیتا تھا۔ یونٹ کا سیکنڈ اِن کمانڈ ہو کربھی اْس نے ہر آپریشن میں حصہ لیا اور کامیابیاں سمیٹیں۔ پاک فوج جیسی عمدہ مثال دنیا کی کسی بھی چھوٹی بڑی سپاہ میں نہیں ملتی جہاں کسی بھی رینک میں ہوکر بھی آفیسر جوانوں کے لئے مثال بنتا ہوا دکھائی دیتا ہے یعنی قیادت کا عملی ثبوت پیش کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب تک ہونے
والی شہادتوں میں کسی بھی رینک میں شہید آفیسرز کی ایک لمبی فہرست ملتی ہے جو ہمارے لئے قابلِ فخر بھی ہے اور قابل تقلیدبھی۔ کمانڈنگ آفیسر نے مسکراتے ہوئے ، میجر جہانزیب اور ایک دوسرے آفیسر کو سولجرز کی مخصوص تعداد کے ہمراہ مقررہ مقام کی جانب روانگی کے لئے اجازت دے دی۔خصوصی اطلاعات کے ذریعے یہ معلومات بہم پہنچائی جا چکی تھیں کہ کس مقام پر دہشت گردوں کی ممکنہ کارروائی ہو سکتی ہے لہٰذا تربیت یافتہ سپاہ کا یہ گروپ اپنی قیادت کے ہم قدم مستقر کی جانب بڑھنے لگے۔ مقررہ مقام پر پہنچنے پر سپاہ نے علاقے کا گھیراؤ کیا اورتلاش شروع کردی۔ اس دوران دہشت گردوں نے گھیرا تنگ ہوتا دیکھ کر بھاگنے کی کوشش کی اور ایک مکان میں جا گھسے۔ دونوں اطراف سے فائرنگ کا بھر پور تبادلہ ہونے لگا۔ دہشت گردوں نے بھاگنے کی آخری کوشش کی جس میں چند ایک قریبی جنگل میں گم ہو جانے میں کامیاب بھی ہوئے لیکن چند کو میجر جہانزیب کی رائفل نے تاک لیا تھا۔میجر جہانزیب نے اپنے ساتھیوں کو پوزیشن لینے کا اشارہ کیا’’پوزیشن لو،میں انکے پیچھے جارہا ہوں،دیکھو کوئی بھی بزدل بھاگنے نہ پائے‘‘۔۔۔ اور خود ایک بار پھروہ والنٹیئرہوگیا تاکہ گھر کے دروازے کو توڑا جاسکے اور منہ چھپا کر بیٹھے گیدڑوں کو باہر نکالا جا سکے۔میجر جہانزیب نے خود کو مخصوص آڑ سے نکالا اور بھاگ کر دروازے پر یوں برسا کہ وہ اس کے پیروں میں ڈِھ گیا۔ اچانک زور دار حملے نے اندر چھپے دہشت گردوں کے اوسان خطا کر ڈالے اور انھوں نے اندھادھند گولیاں برسانا شروع کر دیں جن میں سے چند ایک نے میجر جہانزیب کے ماتھے اور سینے پر بوسے دیے کیوں کہ انھیں خبر تھی کہ یہ چٹان سینہ ایک شہید کا ہے۔ اگرچہ اس فائرنگ کے دوران میجر جہانزیب کی گولیوں نے دہشت گردوں کو بھی جہنم واصل کر ڈالا لیکن دریں اثنا وہ بھی سینے پرتمغے سجائے نعرہ لاتذر لگاتے ہوئے گرے اور شہادت کی جاوداں منزل کو پا گئے۔میجر جہانزیب جو ہمیشہ اپنے ساتھیوں میں نمایاں نظر آتا رہا،جو ہر کام میں دو قدم آگے نکل کرخود کو والنٹیئر کرتا رہا، آج پھر اپنے ساتھیوں میں سب سے نمایاں تھا۔آج وہ خود کو حقیقی والنٹیئر ثابت کر گیا اوراْس اعزاز و مرتبے کو پا گیا کہ جس کی خواہش ہر سپاہی کا اوّلین خواب ہوتا ہے۔ جی ہاں! شہادت کا مقام و مرتبہ بھلا قرآن پاک سے بہتر کون بتلائے گا جو اِ س زندگی کو تب و تابِ جاودانہ کہہ رہا ہے۔ جو کہہ رہا ہے کہ شہید زندہ ہوتا ہے، ہاں ! مگر تم اس کا ادراک نہیں رکھتے جیسا کہ یہاں تفسیر لکھتا ہوں’’دفاعِ وطن میں سبھی کام آئے ہوئے نوجوانو! تمہارے ہی بارے خدانے بھی تو، بارگاہِ محبت سے خوشبو میں لیپٹی ہوئی آیتوں کو نچھاور کیا تھا، کہاتھا۔۔۔’’سوحق راستوں پر جوچلتے ہوئے لوگ مارے گئے ہیں وہ زندہ تھے اور ہمیشہ ہی زندہ رہیں گے‘‘میجر جہانزیب عدنان جنوری 1983ء کو لیفٹیننٹ کرنل (ریٹائرڈ) ملک نور محمد کے گھر پیدا ہوئے۔ وہ پانچ بہن بھائیوں میں تیسرے نمبر پر آتے ہیں لیکن آج سب پر برتری لے کر پہلے نمبر پر آن کھڑے ہوئے ہیں۔ عسکری روایات کے بیچ پروان چڑھے اور پی ایم اے 107لانگ کورس میں شامل ہو کر کیڈٹ شپ کی تربیت حاصل کی اور 2003 ء میں کامیابی کی سیڑھیاں چڑھتے ، تب و تابِ جاودانہ کے سفر پر نکلے۔انہوں نے فرنٹیئر فورس رجمنٹ کی مایہ ناز پلٹن ’’تین۔ اِکونجا‘‘ میں بحیثیت سیکنڈ لیفٹیننٹ شمولیت اختیارکی۔فرنٹیئر فورس رجمنٹ کی کالے بٹنوں والی یونیفارم ان کو اس قدر پسند تھی کہ انہوں نے پنجاب رجمنٹ میں شمولیت کا استحقاق بھی رد کیا۔ یونٹ سے محبت کا یہ عالم رہا کہ جب بھی گاڑی خریدی اس کا نمبر بھی ’’تین۔ اِکونجا‘‘ ہی لیا۔ جو سپاہی اپنی یونٹ سے اتنی محبت رکھتا ہو ، اْس کے لئے وطن کی محبت کا
عالم کیا ہوگا۔ یہی وہ محبت میں دیوانہ پن ہے جو ایک سپاہی کی میراث جانا جاتا ہے اور آج میجر جہانزیب نے اپنی میراث کی ہی لاج نبھائی ہے۔میجر جہانزیب ایک خوب صور ت جسم و جثے والی شخصیت کے حامل انتہائی سمارٹ آفیسرتھے جن پر خاکی وردی جچتی تھی۔ یوں کہوں تو مبالغہ نہیں کہ آپ دراز قامت، کشادہ سینہ، روشن چہرہ، چمکدار آنکھیں، پروقار شخصیت اور بارعب آواز سے بھر پور عسکری وجاہت کا حامل آفیسررہے۔ اپنے قد کاٹھ کی بدولت ہی اْن کا انتخاب ڈرل کے لئے کیا جاتا رہا جس میں قائد گارڈ اور پر چم پارٹی جیسی اہم ترین پریڈوں کا حصہ ہونا کسی بھی کیڈٹ کی خواہش ہو اکر تی ہے لیکن ملتی نصیب والوں کو ہی ہے۔ وہ اپنی ہر دل عزیز طبیعت کی وجہ سے کچھ ہی عرصے میں یونٹ بھر کی جان بن گئے۔ساتھی افسران میجر جہانزیب کے ساتھ مشورہ کرنا بہتر جانتے اور جوان اپنی بات ان سے شیئر کرنا ضروری گردانتے رہے۔ یہی وجہ تھی کہ پیشہ ورانہ تعلیم و تربیت کے ایوانوں میں رونق، کھیل کے میدانوں کا جوش وجذبہ، فنکشنوں کے انتظام و انصرام کی تخلیقی چمک دمک ان کے عمدہ خیالات کا شاخسانہ ہوا کرتی تھی۔ سینئرز کے بیچ ذہنی پختگی اور جونیئرز کے بیچ دوستانہ رکھ رکھاؤ میجر جہانزیب کا طرۂ امتیاز تھا۔انہوں نے دورانِ سروس کئی اہم ذمہ داریاں نبھائیں جن میں جنرل جہانگیر کے ساتھ مسلسل کئی برس تک سٹاف آفیسر کی اہم ترین ذمہ داری بھی بطریقِ احسن نبھائی اور خوب نیک نامی کمائی۔شہید کے والدپاکستان آرمی کی تاریخ سازنشانِ حیدرپنجاب رجمنٹ سے بطور لیفٹیننٹ کرنل ریٹائرڈ ہوئے ہیں۔آج جب بابا اپنے بیٹے کو یاد کرتے ہیں تو فخر سے کہتے ہیں ’’ میرا بیٹا میرا مان بڑھا گیا ہے، وہ ہمیشہ عزت اور غیرت کی حامل زندگی کی بات کیا کرتا تھا اور مجھے خوشی ہے کہ اْس نے اپنی سب باتوں کی لاج نبھائی۔ مجھے فخر ہے کہ میں میجر جہانزیب عدنان جیسے دلیر بیٹے کا باپ ہوں‘‘وہ کہتے ہیں کہ جہانزیب کہا کرتا تھا ’’بابا! ہمیں اپنا خوب صورت کل بچانے کے لئے آج قربان کرنا پڑتا ہے تو کوئی بڑی بات نہیں‘‘۔ مجھے فخر ہے کہ میرے جہانزیب نے اپنی جان کا نذرانہ دے کر وطن کے کل کو محفوظ بنانے کے لئے شہادت جیسا عظیم رتبہ حاصل کیا ہے۔ شہادت سے قبل آخری بار جب وہ چھٹی گزار کر واپس جا رہا تھا تو کئی باتیں اور کئی نصیحتیں ہوئیں۔ اس کے لہجے میں بَلا کا یقین اور اعتماد تھا۔ قریب قریب کئی ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا تھا اور وہ مسلسل آپریشن میں پیش پیش تھا۔ جب بھی بات ہوئی اس نے یہی کہا کہ آپریشن مکمل ہوتے ہی چھٹی لے کر آئےگا۔میجر جہانزیب شہید اپنی والدہ سے انتہائی والہانہ محبت اور عقیدت رکھتے تھے۔ اکثر اْن کے پاس بیٹھ جاتے اور ڈھیروں باتیں کرتے‘ بالکل ویسے ہی جیسے کبھی بچپن میں ماں کی گود میں لیٹے لیٹے خوش ہوا کرتے تھے۔ ماں جیسا رشتہ کہیں نہیں جو اتنی محبت بانٹتی ہے کہ بچے محبتوں کا بار اْٹھائے عمر گزار دیتے ہیں۔ بیٹے کو سبز ہلالی پرچم میں لپٹا دیکھ کر ماں کی ممتا جاگ گئی۔ اْس نے اپنے بیٹے کو ’’کلاوہ‘‘ مار کر سینے سے لگایا تو فرش سے عرش تک سب کے سب رشک کرنے لگے۔ صد آفرین ہے شہیدوں کی ماؤں پر جن کے جگرے پہاڑ جیسے ہوتے ہیں اور کیوں نہ ہوں گے جو شیروں جیسے بیٹے پیدا کر سکتی ہیں، وہ شیروں سے بھی زیادہ حوصلہ رکھتی ہیں۔ میجر جہانزیب جیسا لال پیدا کرنے والی بہادر اور دلیر ماں نے آنکھ میں اْترے آنسو پونچھنے کے لئے ہاتھ اْٹھائے تو بے شمار ہاتھ اپنی ماں کی آنکھوں کو روشن کرنے کو بے تاب ہورہے تھے۔ یہ اْن بیٹوں کے ہاتھ ہیں جو اس دلیر ماں کی عظمت کو اپنے ہاتھوں سلام پیش کرتے ہیں جو آج بڑے فخر سے کہتی ہے ۔’’مجھے اپنے بیٹے کی شہادت پر خوشی ہے جس نے مجھے شہید کی ماں کا درجہ دیا ہے۔ آج لوگ مجھے شہید کی ماں کہہ کر مبارک بادیں دے رہے ہیں تو مجھے خوشی محسوس ہو رہی جس پر میں اللہ کا شکر ادا کرتی ہوں‘‘۔ میں، آپ، ہم سب ، پوری قوم ایسی ماؤں کو سلام پیش کرتے ہیں جن کے طفیل میرے وطن پاکستان کی سلامتی کی ضمانت ہے۔ابھی کل کی بات لگتی ہے جب میجر جہانزیب شہید اپنے چھوٹے بھائی عادل کی شادی پر گھر آئے ہوئے تھے۔ سب بھائیوں نے سرخ کرتے پہن کر بھائی کی مہندی میں خوب بھنگڑے ڈالے تھے۔ چھوٹے بھائی عادل کا کہنا ہے کہ وہ ہمیشہ بھائی کی آنکھو ں میں ایک روشنی دیکھا کرتے تھے، اْن کا بھائی ایک مضبوط سہارا اور کامیاب رہبر جیساتھا جو ہر مسئلے اور پریشانی میں
بہترین نمونہ پیش کیا کرتا تھا۔ وہ اپنی چھوٹی بہن سے بہت پیار کرتے رہے کیوں کہ چھوٹی بہنیں تو ہوتی ہی اس لائق ہیں لیکن میجر جہانزیب کے لئے نشمیہ نور کچھ زیادہ ہی عزیز رہی۔ بہن بھائی کو یاد کرتی ہے تو اس کی معصوم آنکھوں میں موتی بھر جاتے ہیں اور زبان سے لفظ اْترنے میں تردد پیش کرنے لگتے ہیں جنہیں بھائی کی محبت کھینچ کر باہر لاتی ہے۔ نشمیہ تب ایک فوجی بھائی کی پیاری بہنا بن جاتی ہے اور کہتی ہے ’’میرے بھائی مجھے بہت پیارکرتے تھے، میں اپنے بھائی پر فخر کرتی ہوں ‘‘۔نشمیہ نور آپ اداس نہ ہوں کیوں کہ وطن کی حفاظت کرنے والے بھائیوں کی بہنیں ہمیشہ محفوظ رہتی ہیں۔میجر جہانزیب عدنان شہید دوسروں کے لئے قربانی کا جذبہ رکھنے والا ایک خالص انسان رہا جو ہمیشہ دوسروں کی خواہشات کو اپنی خواہشات اور ترجیحات پر مقدم رکھتا اور ایثار و قربانی کے جذبے سے سرشار ہو کر وہ عام زندگی میں بھی دوسروں پر سبقت رکھتا تھا۔ وہ ہمیشہ دوسروں کی پریشانیوں کو سنتا اور ان کا حل تلاش کرتا لیکن اپنی پریشانیوں کو ایسے دبا دیتا جیسے وہ سرے سے تھیں ہی نہیں۔وہ ایک سلیقہ مند اور ترتیب والے انسان تھے جو کبھی بھی کوئی کام ادھورا چھوڑنا پسند نہیں کرتے تھے۔ ان کے انتہائی قریبی دوست میجر تیمور کے لئے تو جیسے ایک بہت بڑا دھچکا تھا لیکن وہ خوش قسمت ہے کہ اْسے اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سا جہانزیب ٹھیک اس لمحے عطا کیا جس لمحے میجر جہانزیب آسمانوں کی سمت اپنا سفر شروع کر چکے تھے۔ جی ہاں! تیمور کہتا ہے کہ اللہ نے اسے ایک بیٹے سے نوازا اور جس کی پیدائش کی پہلی اطلاع کے لئے اْس نے اپنے موبائل سے میسج میجر جہانزیب کو ہی کیا تھا لیکن جس لمحے میسج کیا گیا ٹھیک اْسی لمحے اْس کے موبائل کی گھنٹی جاگ اْٹھی اور دوسری جانب سے بولنے والے نے میجر جہانزیب کی شہادت کی خبر سنائی۔ کیسی عجیب خوشی ہو گی ایک طرف بیٹا اور دوسری طرف شہادت۔۔۔اْس نے اگلا کوئی بھی کام کرنے سے پہلے بیٹے کا نام اپنے دوست، اپنے پلاٹون میٹ، اپنے فخر کے نام پر جہانزیب رکھ دیا۔ کسی بھی دوست کے لئے اس سے بڑے اعزاز کی بات بھلا کیا ہوگی کہ وہ ایک عظیم شہید کا بہترین دوست ہونے کا اعزاز رکھتا ہو۔ ہمیں ایسے دوستوں پر بھی فخر ہے جو پاکستان کا جھنڈا لہرانے میں ساتھ نبھاتے ہیں۔عامر حفیظ جو شہید کے بڑے کزن اور استاد بھی رہے، اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’ جہانزیب جسے سب پیار سے زیبی کہتے تھے، میرا شیر تھا جو جیا تو بھی مثال اور آج چلا گیا تو بھی سب کے لئے مثال بن کر گیا ہے۔ زیبی جیسا سمجھ دار، ہونہاراور پیارا انسان انہوں نے کم ہی دیکھا ہے۔ وہ جتنا پیارا انسان تھا اتنا ہی پیارا فوجی بھی تھا جو اپنے کام، اپنی یونیفارم، اپنی یونٹ اور اپنے وطن کی آن بان کو ہرحال میں مقدم رکھتا اور وقت آنے پر کچھ بھی کر گزرنے پر تیار ہوتاتھا۔ وہ ہمارا نہیں اس ملک کا فخر ہے جو اپنا نام تاریخ میں ہمیشہ کے لئے سنہری حروف میں ثبت کر گیا ہے۔‘‘میجر جہانزیب عدنان جہاں ایک اچھے بیٹے رہے ، اچھے بھائی بنے، خوب صورت دوست رہے اور قابل فخر سپاہی ہوئے وہاں وہ ایک محبت کرنے والے شوہر اور باپ بھی رہے۔انہوں نے اپنی شریکِ حیات کے لئے ہمیشہ نیک تمناؤں کے گلدستے بھیجے جن کی خوشبو ہمیشہ تازہ رہے گی۔ معصوم انیقہ جہانزیب اپنے بابا کو یاد کرتی تو ہے لیکن ایسے کہ وہ یہیں کہیں سے لوٹ آئیں گے اور بے شک وہ یہیں کہیں ہمارے ساتھ موجود ہے جو ہر پل ہر لمحہ اپنے بچوں کے ساتھ ہی رہے گا۔ دونوں بیٹے محمد ابراہیم اور محمد ریان ابھی بہت چھوٹے ہیں لیکن ایک بہادر باپ کے بیٹے کل کو اپنے نام کی لاج نبھاتے ہوئے ملیں گے۔میجر جہانزیب عدنان کی شہادت ایک فرد واحد کی
شہادت نہیں۔ نہ ہی یہ اس کے خاندان کی شہادت ہے بلکہ یہ تو عہد کی شہادت ہے۔ ایک سپاہی کی شہادت ہے جو اپنی جان دے کر اپنے خاندان اور اپنے ملک کی عزت و ناموس پر فدا ہو گیا اور کچھ شک نہیں کہ جب تک میجر جہانزیب جیسے جری جوان اور دلیر بہادر سپوت اس وطنِ عزیز کی آغوش میں پروان چڑھتے رہیں گے تب تک وہ اس کی آبرو بچانے کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے رہیں گے۔ اللہ اس دیس کو میجر جہانزیب سے شیروں سے ہمیشہ ہمیشہ آبادرکھے تاکہ ہماری آزادی اور غیرت پر کوئی آنچ نہ آنے پائے۔ اللہ شہید کو مقامِ عظیم عطا کرے ۔آمین( یہ مضمون پاک فوج کے میگزین ہلال سے لیا گیا ہے)