اسلام دین یُسر یعنی آسانی کا دین ہے۔ قرآن وحدیث میں کھڑے ہو کر یا بیٹھ کر غسل کرنے پر بحث ہی نہیں کی گئی۔ اس لیے جدید سے جدید دور بھی آ جائے تو اسلام کی تعلیمات پر عمل کرنے میں دشواری نہیں ہو گی۔ بعض لوگوں کا پیشہ بن چکا ہے کہ جان بوجھ کر اسلام کے نام پر لوگوں پر من مانی سختیاں مسلط کرتے رہتے ہیں۔معلوم نہیں ان کو اس میں کیا فائدہ ہے۔ لہٰذا جس طرح غسل کرنے میں آسانی ہو اور باپردہ جگہ ہو، اسی طریقے سے غسل کریں۔ خواہ بیٹھ کر ہو یا کھڑے
ہو کر، کوئی ممانعت نہیں ہے۔ اصل مقصد طہارت حاصل کرنا ہے جو شرائط ھے غسل کی وہ مدے نظر رکھ کے وضو کیجئےاور سب سے شرائط کو غور سے سمجئے۱ : اسلام قبول کرنے کے بعد غسل کرنا چاہیئے۔ ( صحیح ابن خزیمہ سندہ صحیح) ۔ ۲: جب مرد اور عورت کی شرمگائیں مل جائیں تو غسل فرض ہو جاتا ہے ۔ ( صحیح مسلم)۔۳: احتلام ہو تو بھی غسل فرض ہو جاتا ہے ۔ ( صحیح بخاری )۔۴: جمعہ کے دن غسل کرنا ضروری ہے ۔ ( صحیح بخاری و صحیح مسلم )۔۵: جو شخص میت کو نہلائے اسے غسل کرنا چاہیئے (اگر میت کے جسم سے نکلی غلاظت لگجائے تو نہیں تو غسل ضروری نہیں بلکہ وضو کافی ہے ۔اس پہ ہماری دوسری پوسٹ مکمل وضاحت سے موجود ہے)۔ ( رواہ الترمذی، صححہ ابن حبان و ابن حزم، نیل، صححہ الا لبانی، صححہ الحاکم و الذھبی)۔۶: احرام باندھتے وقت غسل کرنا چاہیئے ۔ ( رواہ الحاکم و سندہ صحیح، المستدرک )۔۷: عورت کو اذیت ماہانہ اور نفاس کے بعد غسل کرنا فرض ہے۔ (صحیحبخاری)۔غسل کے متفرق مسائل حالت جنابت میں رکے ہوئے پانی میں غسل نہ کرے۔( صحیح مسلم)۔ پانی میں فضول خرچی نہ کرے ۔ ( احمد و ابو داود و ابن ماجہ و سندہ صحیح، التعلیقات )۔غسل کے لیے تقریباً سوا صاع یعنی چار کلو گرام پانی کافی ہے ۔ ( صحیح بخاری )۔برہنہ ہوکر پانی میں داخل نہ ہو۔ ( ابن خزیمہ، صححہ الحاکم و الذھبی۔ المستدرک)۔نہاتے وقت پردہ کر لے ۔ ( رواہ ابو داود و النسائی و احمد و سندہ حسن۔ التعلیقات للالبانی علی المشکوٰۃ )۔ اسلام قبول کرنے کے بعد بیری( کے پتوں) اور پانی سے نہائے ۔ (ابن خزیمہ و اسناد صحیح)۔اگر عورت کے بال مضبوطی سے گندے ہوئے ہوں تو انہیں کھولنے کی ضرورت نہیں۔ ( صحیح مسلم) ۔مرد عورت کے اور عورت مرد کے بچے ہوئے پانی سے غسل نہ کرے۔ ( ابوداود و النسائی سندہ صحٰح ، التعلیقات )۔مرد اپنی بیوی کے بچے ہوئے پانی سے غسل کر سکتا ہے ۔(صحیح مسلم)۔ فرض غسل کرنے کے بعد دوبارہ وضوء کرنے کی ضرورت نہیں۔ ( رواہ الترمذی و صححہ)۔غسل کرنے کا طریقہؔحمام میں داخل ہونے کی دعاء بسم اللہ
اعوذباللہ من الخبث و الخبائث ( رواہ العمری بسند صحیح ، فتح الباری جزء ۱ ) ۔برتن میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے ہاتھوں کو تین مرتبہ دھوئے۔ بائیاں ہاتھ ہر گز پانی میں نہ ڈالیں پانی دائیں ہاتھ سے لیں ۔ (صحیح مسلم )۔ پھر بائیں ہاتھ سے اپنی شرم گاہ اور نجاست کو دھوئے۔ ( صحیح بخاری ) پھر بائیں ہاتھ کو زمین پر دو تین مرتبہ خوب رگڑے اور پھر اسے دھو ڈالے (موجودہ دور میں صابن سے اچھی طرح ہاتھ دھونا کافی ہے، اگر صابن نہیں تو مٹی پہ مار سکتا ہے کیونکہ مٹی پاکی کا زریعہ ہے۔ ( صحیح بخاری و صحیح مسلم )۔پھر اسی طرح وضوء کرے جس طرحصلٰوۃ کے لیئے وضوء کیا جاتا ہے۔(اگر سر کا مسح نہ کرے ااور پیر نہ دھوئے تو بھی حرج نہیں ۔ غسل کے بعد سائیڈ پہ ہو کر پیر دھو لے۔ اور اگر دوران غسل ہوا خارج نہ ہوئی۔ نہ ہی پیشاب کیا نہ ہی شرم گاہوں کو چھوا تو اس وضو سے نماز پڑھ سکتا ہے) ( صحیح بخاری )۔ یعنی تین مرتبہ کلی کرے ،تین مرتبہ ناک میں پانی ڈالے، کلی اور ناک مین پانی ایک چلو سےڈالیں۔ (صحیح بخاری،رواہ ابن خزیمہ سندہ حسن،رواہ احمد و روی النسائی و ابو داود و ابن حبان و بلوغ الامانی جزء ۲ فتح الباری جزء ۱ )تین دفعہ چہرہ دھوئے اور تین دفعہ دونوں ہاتھ کہنیوں تک دھوئے ۔ ( رواہ النسائی اسناد صحیح ، فتح الباری جزء ۱ )۔پھر انگلیاں پانی سے تر کرے اور سر کے بالوں کی جڑوں میں خلال کرے ،یہاں تک کہ سر کی جلد تر ہو جانے کا یقین ہو جائے پھر سر پر تین مرتبہ پانی بہائے ۔ ( صحیح بخاری ) پھر باقی تمام بدن پر پانی بہائے ۔ پہلے دائیں طرف پھر بائیں طرف ۔ ( صحیح بخاری )پھر دونوں پیر ( پاؤں)تین تین مرتبہ دھوئے انگلیوں کے خلال کے ساتھ ، پہلے دائیاں پھر بائیاں۔ ( صحیح بخاری)