ضرت با یزید بسطامی ؒ کا شمار قرون اولیٰ کے بہت بڑے اولیا اللہ اور مشائخ میں ہوتا ہے۔ آپ ؒ اپنی والدہ محترمہ کی بے حد تعظیم کیا کرتے تھے اور خود فرماتے تھے کہ مجھے جتنے بھی مراتب حاصل ہوئے ہیں سب والدہ محترمہ کی اطاعت اور خدمت سے حاصل ہوئے ہیں۔آپؒ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ والدہ محترمہ نے رات کو مجھ سے پانی مانگا لیکن اتفاق سے اس
وقت گھر میں پانی موجود نہیں تھا چنانچہ میں گھڑا لے کر گھر سے باہر نکلا اور نہر سے پانی بھر کر لایا۔ اس آنے جانے کی وجہ سے تاخیر ہو گئی اورجب واپس پہنچا تو والدہ محترمہ کی دوبارہ آنکھ لگ چکی تھی۔ میں اس انتظار میں کھڑا ہو گیا کہ ابھی آنکھ کھل جائے گی تو پانی پیش کروں گا لیکن اس انتظار میں رات گزر گئی اور میں کھڑا رہا جبکہ یہ سردیوں کی راتیں تھیں اور پانی بھی برتن میں جم جاتا تھا۔ جب والدہ کی آنکھ کھلی تو میں نے پانی پیش کیا تو انھوں نے کہا کہ بیٹا پانی رکھ دیا ہوتا اتنی دیر کھڑے رہنے کی کیا ضرورت تھی تو کہنے لگے کہ میں نے سوچا کہ کہیں آپ کی آنکھ کھلے اور آپ کو پیاس کی تکلیف نہ برداشت کرنا پڑے اس لئے ساری رات سخت سردی میں بھی کھڑا رہا۔ یہ سن کر والدہ محترمہ بہت دعائیں دینے لگیں۔اسی طرح ایک دفعہ رات کو و الدہ محترمہ نے کہا کہ دروازہ کھول دو لیکن میں اس پریشانی میں ساری رات جاگتا رہا کہ معلوم نہیں داہنا پٹ کھولنے کا حکم دیا ہے یا بایاں، اگر غلط پٹ کھل گیا تو کہیں حکم عدولی میں شمار نہ ہو جائے،یعنی اس درجہ آپؒ کو والدہ محترمہ کے ادب اور حقوق کا خیال تھا۔ حضرت بایزید بسطامیؒ فرماتے ہیں کہ مجھے
جو بھی روحانی مراتب حاصل ہوئے وہ سب والدہ کی خدمت ہی کی وجہ سے حاصل ہوئے۔آپ کے مراتب یہ تھے کہ ایک دفعہ قافلہ مدینہ منورہ کی طرف جا رہا تھا اور آ پؒ بھی اس سفر میں شریک تھے۔ آپؒ نے اپنے اونٹ پر اتنا بوجھ لاد دیا کہ لوگوں کو حیرت ہونے لگی کہ آپ اتنے بڑے بزرگ ہیں اور جانور پر اتنا بوجھ لاد دیا، پھر لوگوں سے صبر نہ ہوا تو آپؒ سے یہ اعتراض کیا کہ جانور پر اتنا بوجھ لادنا کیا ظلم نہیں؟ آپؒ فرمانے لگے کہ پہلے دیکھ تو لو کہ بوجھ جانور پر ہے بھی یا نہیں، لوگوں نے جھک کر دیکھا تو سارا مال و اسباب اونٹ کی پیٹھ سے اوپر تھا یہ دیکھ کر لوگ حیرت زدہ ہوگئے۔آپؒ کے تقویٰ اور خوف خدا کی حالت یہ تھی کہ ایک دفعہ حضرت یحییٰ بن معاذؒ نے آپؒ کو قاصد کے ذریعے ایک پیغام بھجوایا اور کھانے کیلئے روٹی کی ایک ٹکیہ بھی بھجوائی جو آب زمزم میں گندھی ہوئی تھی لیکن جب آپ تک یہ ٹکیہ پہنچی تو آپ نے یہ تحفہ یہ کہہ کر واپس کر دیا کہ آب زمزم کی فضیلت تو اپنی جگہ مسلّمہ ہے لیکن یہ کیسے معلوم ہو سکتا ہے کہ اس ٹکیہ کیلئے جو بیج بویا گیا تھا یعنی اس کو جس آٹے سے بنایا گیا ہے وہ کسبِ حلال کا ہے یا حرام کا اور مجھے اس بات میں شک ہے اس لئے میں اسے نہیں کھا سکتا ۔ یہ تھا آپ ؒ کا مقام اور تقویٰ۔آپؒ کے مطابق یہ سب آپؒ کو والدہ محترمہ کی خدمت سے حاصل ہوا ۔اس لئے ان تمام لوگوں کو فکر کرنی چاہیے جن کے والدین حیات ہیں اور وہ ان کو نظر انداز کر کے اپنا وقت کسی اور نیکی کے کام میں صرف کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ شائد یہ افضل کام ہے جبکہ یہ اُن کی شدید غلط فہمی ہوتی ہے۔