ہمارے ہاں یہ افسوسناک رواج عام ہو چلا ہے کہ باتوں کی حد تک لوگ مذہبی تعلیمات کا خوب چرچا کرتے ہیں لیکن جب عمل کی باری آتی ہے تو سب کچھ بھول جاتے ہیں.ویب سائٹ Parhloکی ایک رپورٹ میں اسی رویے کا تذکرہ کرتے ہوئے ام عبداللہ نامی انٹرنیٹ صارف نے ہمارے معاشرے کی ایک جھلک بھی دکھائی ہے جبکہ تاریخ کے جھروکے سے
وہ منظر بھی دکھایاہے جو ہم سب کے لئے مشعل راہ ہونا چاہئیے.وہ لکھتی ہیں: گزشتہ روز مجھے ایک فیملی فرینڈ کی بیٹی کی شادی میں شرکت کا موقع ملا. اس شادی کی تقریب کراچی کے پرآسائش ترین شادی ہال میں منعقد ہوئی جہاں 5اقسام کے میٹھے اور انواع و اقسام کے دیگر کھانے پیش کئے گئے تھے. دولہے کی ماں نے بتایا کہ اس کے بیٹے کی شیروانی 35 لاکھ میں تیار ہوئی تھی جبکہ قیمتی کھسہ اس کے علاوہ تھا، اور وہ فخریہ بتارہی تھیں کہ یہ تمام اخراجات لڑکی والوں نے اٹھائے ہیں کیونکہ ان کے ہاں یہی رواج ہے. لیکن جب نکاح کا وقت آیا تو پتہ چلا کہ حق مہر ’شرعی‘ سوا بتیس روپے طے کیا گیا ہے. یہ سن کر مجھے شدید جھٹکا لگا. میں اس بات پر حیران تھی کہ جب 35 لاکھ کی شیروانی اور بھاری جہیز کی بات ہوئی ہوگی تب تو شریعت یاد نہیں آئی ہو گی.جب 15 اقسام کے کھانے تیار کروائے گئے اور شادی کی تقریب کیلئے شہر کے مہنگے ترین شادی ہال کا انتظام کیا گیا تو اس وقت بھی شریعت کے احکام یاد نہ آئے. حضور ﷺ نے اپنی پیاری بیٹی فاطمہؓ کو نہایت سادگی کے ساتھ رخصت کیا تھا اور اس مبارک جوڑے کی نئی زندگی کیلئے تمام لوازمات کا اہتمام بھی نہایت
سادگی اور وقار کے ساتھ ہوا تھا. روایات میں بیان کیا گیا ہے کہ جب حضور ﷺ نے حضرت فاطمہؓ کیلئے حضرت علیؓ کا رشتہ قبول فرمایا تو ان سے پوچھا کہ تمہارے پاس اپنی اہلیہ کے جہیز کیلئے کچھ ہے؟ انہوں نے عرض کیا ”میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ میرے اسباب میں صرف میری تلوار، زرہ اور ایک اونٹ ہے.“ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہاری تلوار کی ضرورت دشمنان اسلام کے خلاف جنگ کے دوران ہوگی اور تم اپنے اونٹ کو کھجور کے باغات کو پانی دینے اور سفر کیلئے استعمال کرو گے، لہٰذا تم صرف اپنی زرہ کو وقف کرسکتے ہو اور میں اسی کے بدلے اپنی بیٹی فاطمہؓ کا ہاتھ تمہارے ہاتھ میں دیتا ہوں. آپ ﷺ نے حضرت علیؓ کی زرہ کی فروخت کا حکم دیا اور اس کے بدلے تقریباً 500 درہم حاصل ہوئے . اس رقم کو تین حصوں میں تقسیم کرکے ایک حصہ بلالؓ کے حوالے کیا گیا تاکہ وہ اچھی خوشبو خرید کر لائیں جبکہ باقی دو حصے ملبوسات اور گھریلو اشیاءکی خریداری کیلئے استعمال ہوئے. تو یہ ہے وہ خوبصورت تاریخ جسے ہم بھلا بیٹھے ہیں. ہمیں نہ صرف اسے یاد رکھنے کی ضرورت ہے بلکہ اس کی روشنی میں اپنی زندگیوں میں حقیقی تبدیلی لانے کی بھی ضرورت ہے،تب ہی تو ہم شریعت کا حوالہ دیتے ہوئے بھی اچھے لگیں گے.