Wednesday November 27, 2024

100 سال تک مسلسل چلنے والے پراسرار جنریٹر کی گمشدگی ۔۔۔۔۔

لاہور (ویب ڈیسک ) مئی 1965ء میں ایک بھارتی کوہ پیما ٹیم ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے نکلی۔ دنیا کی یہ بلند ترین چوٹی جو سطح سمندر سے 29029فٹ بلند ہے، پہلی بار دو کوہ پیماؤں نے 1953ء میں سر کی تھی۔ ان میں سے ایک کا تعلق نیوزی لینڈ سے تھا۔ اس کا نام ایڈمنڈہلیری تھا اور دوسرا ایک پورٹر (قلی) تھا جو نیپال کا رہنے والا تھا۔ نیپالی زبان میں ان

قلیوں کو شرپا کہا جاتا ہے۔ یہ شرپا لوگ برفانی ماحول کے پروردہ ہوتے ہیں اس لئے ان یخ بستہ پہاڑوں میں اپنی کمروں پر بوجھ لاد کر غیر ملکی کوہ پیماؤں کے ساتھ جاتے ہیں۔ اس شرپا کا نام تن زونگ تھا۔۔۔ اب ان دونوں کا نام کوہ پیمائی کی تاریخ میں امر ہو چکا ہے۔۔۔ ایڈمنڈہلیری کو سر کا خطاب دیا گیا اور شرپا تنگ زونگ کو انڈیا نے اپنے ایک نئے قائم کئے گئے کوہ پیمائی کے انسٹی ٹیوٹ میں فیلڈ ٹریننگ کے شعبے میں بطور ڈائریکٹر تعینات کر دیا۔ انڈین کوہ پیماؤں نے بھی ایورسٹ کو سر کرنے کی کوشش کی لیکن ان کو ناکامی ہوئی۔ آخر مئی 1965ء میں انڈین نیوی کے ایک آفیسر، کیپٹن (آرمی میں یہ رینک کرنل کے مساوی ہوتا ہے) من موہن سنگھ کوہلی کی قیادت میں ایورسٹ کو سر کر لیا گیا۔ خود کیپٹن کوہلی تو چوٹی پر نہ گئے لیکن انہوں نے یکے بعد دیگرے اپنی چار پارٹیوں کو چوٹی سر کرنے کا موقع دیا۔ اور اس طرح نو (9) انڈین کوہ پیما اس چوٹی کے فاتحین کہلائے۔ اتنی زیادہ تعداد میں کسی ایک ملک کے کوہ پیما کبھی بھی ایورسٹ پر نہیں پہنچے تھے۔۔۔ انڈیا کا یہ ریکارڈآنے والے 17برسوں تک قائم رہا۔جب یہ فاتح ٹیم واپس نئی دہلی پہنچی تو اس کا شایانِ

شان استقبال کیا گیا۔ کیپٹن کوہلی جن کی عمر اب 34برس ہو چکی تھی وہ اس سے پہلے بھی ہمالیہ کی دوسری کئی چوٹیاں سر کر چکے تھے۔ وہ جب نئی دہلی ائر پورٹ پر مبارکباد دینے کے لئے بیرونی ممالک سے آنے والوں کا سواگت کررہے تھے تو اس وقت کے ’’را‘‘ کے ڈائریکٹر مسٹر کاؤ نے ان کے کان میں سرگوشی کی کہ اس جہاز کے پیچھے انڈین انٹیلی جنس بیورو کے چیف ان کا انتظار کررہے ہیں۔ کیپٹن کوہلی جب وہاں جاتے ہیں اور جو کچھ سنتے ہیں وہ ایک بڑی چشم کشا داستان ہے کیپٹن کوہلی جب ہوائی جہاز کے پیچھے گیا تو وہاں اس کی ملاقات ’’را‘‘ کے ڈائریکٹر سے ہوئی جس نے کہا کہ اپنے مہمانوں کی استقبالیہ تقریبات سے فارغ ہو کر میرے دفتر میں آجاؤ۔۔۔ اس ملاقات میں اسے بتایا گیا کہ وہ فوراً امریکہ پہنچے، ایک نہائت ضروری اور خفیہ مشن اس کا منتظر ہے۔ مشن یہ تھا کہ سی آئی اے کوہ ہمالیہ کی کسی چوٹی پر ایک ایسا مانیٹرنگ آلہ نصب کرنا چاہتی تھی جو چینی جوہری اور میزائلی تجربات کی الیکٹرانک جاسوسی کرسکے۔ کوہلی امریکہ جاتا ہے تو اسےچند امریکی سائنس دانوں کے ہمراہ الاسکا بھیجا جاتا ہے جہاں سارا سال موسم سرد اور

خشک رہتا ہے۔وہاں ایک برفانی چوٹی پر کوہلی کو اس بات کی ٹریننگ دی جاتی ہے کہ یہ آلہ کیسے فنکشن کرتا ہے اور اس کی تنصیب کیسے کی جانی ہے۔ اس آلے کا وزن ڈیڑھ من (57 کلو گرام) ہے۔ اس کو چالو رکھنے کے لئے ایک جنریٹر متعارف کرایا جاتا ہے۔ یہ جنریٹر جوہری ایندھن سے چلتا ہے۔ جب اس میں جوہری ایندھن بھردیا جاتا ہے تو وہ 100 سال تک کام کرتا رہتا ہے۔ اس سے تابکاری بھی خارج ہوسکتی ہے اس لئے اس کوہینڈل کرنے کے لئے ازبس احتیاط کی ضرورت ہے۔ کوہلی کو بتایا جاتا ہے کہ اس کی تنصیب کا سارا کام امریکی کوہ پیما اور جوہری سائنس دان کریں گے۔ اس کا کام صرف یہ ہوگا کہ وہ ایک تو ایسی چوٹی کا انتخاب کرے جو کم از کم 27000 فٹ بلند ہو، دوسرے اس جاسوسی آلے کو اٹھا کر چوٹی تک لے جانے کے لئے مزدوروں اور قلیوں شرپاز کا بندوبست کرے اور تیسرے ان ساری معلومات کو صیغۂ راز میں رکھے۔ کوہلی واپس نئی دہلی پہنچتا ہے تواگست 1965ء کی کوئی تاریخ ہے۔ چند روز بعد امریکی کوہ پیما اور جوہری سائنسدان بھی دہلیآجاتے ہیں جن کے پاس متعلقہ جاسوسی آلات، انٹینااور دوسرا سازو سامان ہوتا ہے۔فیصلہ

کیا جاتا ہے کہ نندا دیوی نامی ایک ہمالیائی چوٹی پر جو 27500 فٹ بلند ہے جاکر اس آلے کو نصب کردیا جائے۔ کوہلی اس ساری ٹیم کو لے کر جب چوٹی کے قریب پہنچتا ہے تو موسم یکدم خراب ہوجاتا ہے۔ یہ سارے لوگ نندا دیوی سے پانچ سات سوفٹ نیچے ایک کیمپ پر رک جاتے ہیں اور موسم ٹھیک ہونے کا انتظار کرتے ہیں۔ موسم ٹھیک نہیں ہوتا بلکہ دن بدن خراب ہوتا جاتا ہے تو اس انڈو امریکی ٹیم کو واپس آنا پڑتا ہے۔ لیکن واپسی کا سفر اتنا ہی مشکل ہے جتنا اوپر جانے کا۔۔۔ شرپا لوگ تھک چکے ہیں اور اس 57کلو وزن کو اٹھا کر واپس کوہ ہمالہ کے دامن میں بیس کیمپ تک نہیں جاسکتے۔ مصیبت یہ بھی ہوتی ہے کہ نندادیوی سے 500فٹ نیچے پہنچ کر جنریٹر میں جوہری ایندھن بھردیا گیا تھا۔اس لئے اب وہ جنریٹر آن ہے اور ایک سو سال تک آن رہے گا۔ اس سے حرارت خارج ہورہی ہے اور چار فٹ سے زیادہ اگر اس کے قریب جائیں تو حرارت محسوس کی جاسکتی ہے اس لئے کسی شرپا کی کمر پر لاد کر اس کو نیچے لانا ممکن نہیں۔’’را‘‘ کے ہیڈ کوارٹر سے رابطہ کیا جاتاہے۔ وہاں سے منظوری آتی ہے کہ ان آلات کو وہیں نندا دیوی کے قریب (کیمپ نمبر4) پر

ہی چھوڑ دیا جائے۔اگلے سال 1966)ء میں( جب کوہ پیمائی کا موسم آئے گا تو یہی ٹیم وہاں جاکر اس کو چوٹی پر نصب کردے گی۔۔۔۔ یہ 4ستمبر 1965ء کا دن ہے۔ اگلے سال جب مئی 1966ء میں یہ کوہ پیما ٹیم، نندا دیوی پر جاتی ہے توکیمپ نمبر 4 سے وہ جنریٹر ہی غائب ملتا ہے۔ برفانی جھکڑوں کی تیزی اور تندی اس کو نیچے کی طرف کہیں لڑھکا دیتی ہے۔ ساری ٹیم ششدر رہ جاتی ہے۔ سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ اس نندا دیوی پہاڑ کے دامن میں جو گلیشیئرز ہیں وہاں سے دریائے گنگا نکلتا ہے جو سارے بھارت میں سب سے بڑا اور سب سے مقدس دریا ہے۔ اگر جنریٹر کہیں لڑھک کر اس دریا میں جاگرتا ہے تو جوہری ایندھن کے سیلنڈر پھٹ کر لیک کرنے لگتے ہیں اور سارا دریا تابکار ہوجاتا ہے اور لاکھوں کروڑوں انسانوں کی موت یقینی ہے۔ سارے بھارت(را) اور سارے امریکہ سی آئی اے میں کھلبلی مچ جاتی ہے۔ پرابلم یہ بھی ہے کہ اس خبر کو عام بھی نہیں کیا جاسکتا۔ گنگا میں تو کروڑوں ہندو ہر وقت اشنان کرتے رہتے ہیں، ان کو کیسے بتایا جائے کہ وہ دریا کے تابکارپانی سے دور رہیں۔۔۔ لیکن امریکی اربابِ اختیار کی سنگدلی ملاحظہ کریں کہ 1966ء

میں دو اور چوٹیوں پر اسی طرح کے دو اور جاسوسی آلے نصب کردئے جاتے ہیں اور چین کے جوہری اور میزائلی پروگرام کی مانیٹرنگ شروع ہو جاتی ہے۔لیکن 1968ء میں جب امریکہ اپنے سیٹلائٹ خلا میں بھیجنے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو پھر چوٹیوں پر ان جاسوسی آلات کی ضرورت باقی نہیں رہتی اور ان کو چوٹیوں سے واپس لاکر امریکہ لے جایا جاتا ہے اور ان کی حسبِ قاعدہ ڈسپوزل کردی جاتی ہے۔۔۔ تاہم نندا دیوی کے گم شدہ جنریٹر کا مسئلہ بڑا گھمبیر ہے۔ انڈین انٹیلی جنس بیورو کا پہلا ڈی جی آر این ملک بہت برہم ہے اور ساتھ ہی سہما ہوا بھی ہے کہ اگر یہ جوہری ایندھن سے چلنے والا جنریٹر بازیاب نہ ہوا اور اس میں سے تابکاری لیک ہونی شروع ہوگئی تو اس کی ذمے داری کس پر ہوگی۔ تاہم ابھی تک بھارتی پبلک کو اس کی کچھ خبر نہیں۔ فوراً ہی جنریٹر کی تلاش کا دائرہ وسیع کردیا جاتا ہے۔ امریکی سائنس دان کیپٹن کوہلی کو ساتھ لے کر تیز رفتار سٹیمروں میں بیٹھ کر سارے دریائے گنگا کو چھان مارتے ہیں۔ لیکن کسی تابکار مادے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ آخر تین برس کی چھان بین کے بعد بھا بھا اٹامک سنٹر کے ڈائریکٹر چدم برم کے دفتر میں یہ سب لوگ جمع

ہوتے ہیں تو اب تک کی تلاش کا لب لباب ڈسکس کرتے ہیں۔ قیاس کیا جاتا ہے کہ یہ جنریٹر نندا دیوی کے کیمپ نمبر 4 سے کسی ایوالانچ کی زد میں آگیا ہوگا اور پھر کسی جگہ راستے میں جا کر اٹک گیا ہوگا۔ چونکہ اس سے حرارت خارج ہورہی تھی اس لئے جب جوہری ایندھن کی سلاخیں ننگی ہو گئی ہوں تو اِردگرد کی برف پگھل کر جنریٹر کو کہیں دور برف کے نیچے لے جائے گی اور وہاں کسی چٹان کی تہہ میں جاکر یہ جنریٹر رُک جائیگا اور 100برس تک وہیں ’’بیٹھا‘‘ رہے گا اور چلتا رہے گا لیکن اس سے نکلنے والی تابکاری برف کے بے تحاشا انجماد کی وجہ سے کسی دریائی پانی میں گھل کرکسی خطرے کا باعث نہیں بنے گی۔۔۔۔ چنانچہ تلاش ترک کردی جاتی ہے میں نے یہ سطور آپ کی خدمت میں یہ آگہی دینے کے لئے تحریر کی ہیں کہ درج ذیل نکات کی طرف آپ کی توجہ مبذول کروا سکوں ۔۔۔1۔۔۔۔کیپٹن کوہلی آج بھی 86برس کا ہے، زندہ ہے اور فیملی کے ساتھ دہلی میں رہتا ہے۔ وہ دنیا کا ایک مشہور و معروف کوہ پیما بھی مانا جاتا ہے۔ مئی 1965ء میں اسی کی قیادت میںانڈین کوہ پیماؤں نے پہلی بار ماؤ نٹ ایورسٹ سرکی تھی۔ 2۔۔۔ ۔ کوہلی نے اب تک

20کتابیں تحریر کی ہیں جو سب کی سب بہترین کے زمرے میں شمار کی جاتی ہیں۔ اس جوہری جنریٹر والے واقعے پر اس نے جو کتاب لکھی ہے اس کا نام ’’ہمالیہ میں جاسوس ہے جو 2003ء میں شائع ہوئی۔ میرے پاس کوہلی کی خود نوشت کا جو نسخہ ہے اس کا عنوان ’’ ایک قدم اور ہے۔ یہ کتاب 2005ء میں شائع ہوئی تھی اور اسے پینگوئن بکس(انڈیا) نے شائع کیا تھا۔ اس خود نوشت میں کوہلی نے اس حیرت انگیز واقعہ پر ایک مفصل باب تحریر کیا ہے۔ 3۔۔ ۔کیپٹن کوہلی ایک ذمہ دار اور محب وطن بھارتی شہری ہے، وہ اس طرح اپنی کتابوں میں اس انتہائی خفیہ مشن کی تفصیل نہیں بتا سکتا تھا۔ لیکن ہوا یہ کہ اس واقعے کے 13برس بعد ایک امریکی مصنف ہوورڈ کوہن نے 1978ء میں ایک میگزین میں یہ تمام کہانی شائع کردی۔ اس میگزین کا نام آؤٹ سائیڈ تھا۔کوہلی اپنی خودنوشت کے صفحہ 192پر لکھتا ہے: ’’ کوہن نے اس مضمون میں ایسی ایسی حیرت انگیز معلومات اور باتیں تحریر کی ہیں جو امریکہ، انڈیا اور باقی ساری دنیا کے لئے بہت پریشانی کا باعث ہیں‘‘۔ 4 ۔۔ ۔ جب 6ستمبر1965ء کی پاک بھارت جنگ کا آغاز ہوا تھا تو عین اسی دن نندا دیوی پر اس جاسوسی آلے کی تنصیب کی

کوششیں ہورہی تھیں۔ یہ جنگ شروع ہوتے ہی امریکہ نے پاکستان کو ہتھیاروں اور گولہ بارود کی فروخت اور فراہمی پر پابندی لگادی تھی۔اوردکھاوے کے لئے انڈیا کے ساتھ بھی یہی ’’سلوک‘‘ برتاگیا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب پاکستان اور امریکہ کے درمیان سیٹو اور سنٹو معاہدے بھی موجود تھے اور پاکستان سمجھتا تھا کہ امریکہ اس کا دوست ہے۔ اب قارئین کو شائد زیادہ بہتر سمجھ آرہی ہوگی کہ فیلڈ مارشل ایوب خان کو ’’فرینڈز ناٹ ماسٹرز‘‘ ان امریکی فریب کاریوں اور دھوکے بازیوں کا پردہ چاک کرنے کے لئے کیوں لکھنی پڑی تھی۔ ۔ آج امریکہ جو کچھ پاکستان کے ساتھ کررہا ہے اس کا سلسلہ اگست 1947ء ہی سے شروع ہوگیا تھا۔ امریکہ کی اصل دوستی تو برطانیہ سے تھی (اور ہے) 1947-48ء کی کشمیردار، 1965ء، 1971ء اور 1999ء کی پاک بھارت جنگیں جو لڑی گئیں ان میں امریکہ کا جھکاؤ 100% بھارت کی طرف رہا، پاکستان کی طرف نہیں۔ آج بھی امریکہ اور بھارت مل کر افغانستان میں جو کچھ کررہے ہیں اور فاٹا اور بلوچستان میں جو کچھ کیا جارہا ہے اس میںامریکہ دامے، سخنے اور ’’اسلحے‘‘ شامل ہے۔۔۔ اس کے بارے میں کسی کو کوئی شک

نہیں ہونا چاہئے۔۔امریکہ کی ساری تاریخ انہی دھوکے بازیوں، کذب بیانیوں، عیاریوں اور مکاریوں سے بھری پڑی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ دیانت و امانت، لیڈر شپ صفات میں اہم ترین خوبیاں ہیں۔ لیکن امریکی دریا کے بہاؤ کے الٹے رُخ تیرتے ہیں اور کامیاب ہوتے ہیں۔(تحریر:لیفٹیننٹ کرنل (ر) غلام جیلانی خان)

FOLLOW US