معراج کا مبارک سفر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حالت بیداری میں فرمایا وہ کوئی خواب نہیں تھا۔ مکہ مکرمہ سے براق پر سوار ہوکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیت المقدس پہنچے، یہاں دو رکعت نماز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ادا کی، پھر بیت المقدس سے آسمان پر تشریف لے گئے، ہرآسمان میں وہاں کے فرشتوں نے آپ کااستقبال کیا اور ان انبیائے کرام سے ملاقات ہوئی جن کا مقام کسی معین آسمان میں ہے،
مثلاً چھٹے آسمان میں حضرت موسیٰ علیہ ا لسلام سے اور ساتویں میں حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ملاقات ہوئی، انبیائے کرام کے مقامات سے اور آگے تشریف لے گئے اور ایک ایسے میدان میں پہنچے جہاں قلمِ تقدیر کے لکھنے کی آواز سنائی دے رہی تھی اور آپ نے سدرة المنتہیٰ کو دیکھا کہ جس پر اللہ جل شانہ کے حکم سے سونے کے پروانے اور مختلف رنگ کے پروانے گررہے تھے اور جس کو اللہ کے فرشتوں نے گھیرا ہوا تھا، اسی جگہ حضرت جبرئیل امین کو ان کی اصلی شکل میں دیکھا جن کے چھ سو بازو تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت المعمور کو بھی دیکھا اور جنت، دوزخ کا بھی بچشم خود معائنہ فرمایا، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت پر اول پچاس نمازوں کے فرض ہونے کا حکم ملا پھر تخفیف کرکے پانچ کردی گئیں، وہاں سے واپسی پر بیت المقدس ہی میں اترے، اور ان تمام انبیائے کرام کے ساتھ نماز ادا فرمائی جو رخصت کرنے کے لیے بیت المقدس تک ساتھ آئے تھے، پھر وہاں سے براق پر سوار ہوکر اندھیرے میں مکہ معظمہ پہنچ گئے، واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم شب برأت بھی بڑی خصوصیات اور فضیلتوں والی رات ہے، اس رات میں اللہ تعالیٰ کی تجلیات و توجہات کا آسمانِ دنیا پر نزول ہوتا ہے، اور اعلان عام ہوتا ہے کہ کیا کوئی استغفار کرنے والا ہے کہ میں اس کی مغفرت کروں؟ کیا کوئی رزق مانگنے والا ہے کہ میں اس کو رزق عطا کروں، کیا کوئی
ایسا ہے؟ کیا کوئی ایسا ہے؟ غرض پوری رات اسی طرح آواز لگائی جاتی ہے، صحیح ابن حبان کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی رات میں اپنی مخلوق کی طرف خصوصی توجہ فرماتے ہیں اور سوائے مشرک اور کینہ پرور کے سب کی مغفرت فرمادیتے ہیں: عن معاذ بن جبل رضي اللہ عنہ عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال: یطلع اللہ إلی خلقہ في لیلة النصف من شبعان فیغفر لجمیع خلقہ إلا المشرک أو مشاحن (صحیح ابن حبان: ۷/ ۴۷۰)