حضرت لعل شہباز قلندرؒ کہیں تشریف لے جا رہے تھے تو ایک ریچھ نچانے والا نظر آیا۔ پوچھا تم کون ہو تو بولا قلندر، اس دور میں ریچھ نچانے والے کو بھی قلندر کہتے تھے۔ آپؒ بے اختیار مسکرا دیے۔ یہ بات اس ریچھ والے کو پسند نہی آئی۔ کہنے لگا آپ کون ہیں۔ فرمایا میں بھی قلندر ہوں۔ کہنے لگا آپ کیسے قلندر ہیں نا آپ کے پاس ریچھ نہ ڈگڈگی تو تماشہ کیسے دکھائیں گے۔ فرمایا پہلے تم دکھاؤ پھر میں دکھاتا ہوں۔ریچھ والے نے ڈگڈگی بجائ اور ریچھ کھڑا ہو کر ناچنے لگا۔ اس نے کہا اب آپکی باری۔حضرت لعل شہباز قلندر ؒ دو درختوں کی ٹہنیوں پر کھڑے ہو گئے اور فرمایا نیچے سے گذر جاؤ مگر یاد رکھنا آگے جانا مگر واپس کبھی مت آنا۔جیسے ہی وہ نیچے سے گذرا ماحول ہی بدل گیا۔
نہ وہ سورج کی گرمی نہ گرد و غبار جہاں تک نظر دیکھے خوبصورت پہاڑ سبزا وادیاں۔ نہ موسم گرم نہ ٹھنڈا۔ ابھی اسی سوچ میں ہی تھا کے دیکھا ایک عظیم لشکر سپاہیوں کا گھوڑوں پر سوار تیزی سے اسکی طرف بڑھ رہا ہے۔ وہ گھبرا گیا کے آج تو جان گئی۔ پاس پہنچ کر لشکر رکا اور سپہ سالار آگے بڑھا اس سے پہلے وہ کچھ کہتا ۔سپہ سالار بولا: بادشاہ سلامت آپ کہاں غائب ہو گئے تھے۔آپ کی سلطنت آپکا انتظار کر رہی ہے اور ملکہ عالیہ کارو رو کے برا حال ہے۔ اب وہ حیران پریشان شاہی گھوڑے پر سوار ہو کر ساتھ چل دیا۔ جب محل پہنچا تو عظیم الشان امارت دیکھ کرحیران۔ اندر داخل ہوا تو خوب صورت ملکہ گلہ شکوہ کرتی لپٹ گئ۔ کہاں رہ گئے تھے آپ۔سب بھول کر نہا دھو کے شاہی پوشاک پہن کر تخت پر بیٹھ گیا۔ سالوں گذر گئے۔بچے ہوئے پھر شہزادے بڑے ہو گئے۔ بڑھاپا آ گیا جسم سے جان منہ سے ذائقہ چلا گیا۔ ایک دن اپنی سلطنت میں دریا کے کنارے بیٹھے خیال آیا کہ آخر ہوا کیا تھا۔ اسی جستجو میں وہیں پہنچا جہا پر لشکر تھا تو دیکھا وہ درخت اب بھی موجود ہیں۔ سوچا چلو دیکھتے ہیں کیا اور درخت کے بیچ سے گذرا۔ ماحول بدل گیا۔وہی وقت وہی مقام سامنے اسکا ریچھ اور ڈگڈگی پڑی ہے وہی گرمی وہی گرد و غبار۔ پیچھے دیکھا تو حضرت لعل شہباز قلندرؒ کھڑے تھے۔ اس کی حالت غیر ہو گئی بولا جناب میری سلطنت میری ملکہ میرے شہزادے۔۔ تو آپ نے فرمایا سب تماشہ تھا۔