جا نور، پرندے اور کیڑے بھی طبی موت مرتے ہیں مگر ان کی لاشیں کہاں چلی جاتی ہیں؟
اسلام آباد امام جعفر صادقؓ نے جانوروں کے بارے میں ایک حیران کر دینے والی بات بتائی آپ نے فرمایا “پرندے،کیڑے اور جانور بھی یقینی طور پر طبی موت مرتے ہیں لیکن ان طبعی موت مرنے والے پرندوں کے مردہ جسم کسی کو نظر نہیں آتے آخر یہ لاشیں کہاں چلی جاتی ہیں ؟مثلا ہمارے علاقوں میں بےشمار پرندے ،بلیاں ، چوہے اور دوسرے جانور پائے جاتے ہیںیہ جانور بھی اپنی طبی موت مرتے ہیں۔روزانہ ہزاروں پرندے اور دوسرے جانور مرتے ہوں گے *لیکن انکے مردہ جسم ہمیں کہیں نظر نہیں آتےالبتہ ان مردہ جانوروں کی لاشیں ہمیں نظر آتی ہیں جو قید میں مر جائیں یا انہیں زہر دے دیا ہو یا شکاری نے یا کسی دوسرے پرندے نے اسے گھائل کیا ہو،آہستہ آہستہ دم نکلتے ہوئے اپنے کسی جانور کو نہیں دیکھا ہوگا یہاں تک کہ کسی چیونٹی کو بھی نہیں۔امام جعفر صادقؓ نے فرمایا ” یہ مردہ اجسام تمھیں اس لئے نظر نہیں آتے کہ چوپایوں،پرندوں اور دوسرے جانوروں کو اپنی موت کا علم اللہ کی طرف سے پہلے ہی ہو جاتا ہے
وہ اس مقرر وقت سے پہلے پہلے پہاڑوں کی غاروں ، کھووں ، درختوں کے کھوکھلے تنوں ، زمین کے سوراخوں یا گہرے گڑھوں میں جا کر بیٹھ جاتے ہیں اور وہیں مر جاتے ہیں۔یہ اللہ کا نظام ہے جس کی وجہ سے آج انسان سکون سے سانس لے رہا ہے ورنہ اگر باقی جانوروں ،کیڑوں کو چھوڑ کر صرف پرندوں کو لیا جائے تو ایک اندازے کے مطابق دنیا میں پرندوں کی تعداد 700 ارب ہے اگر یہ پرندے سرے عام طبعی موت مرتے تو زمین پر قدم رکھنے تک کی جگہ نہ ملتی ہر طرف انکے مردہ جسم ہوتے جو گندگی اور بےشمار بیماریوں کا سبب بنتے۔”اور تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاو گے ” ۔حضور سرور کائنات ؐ کی حدیث مبارکہ ہے جس کا مفہوم کچھ ایسے ہے کہ ’’میں علم کا شہر ہوںاور حضرت علی کرم اللہ وجہہ اس کا دروازہ‘‘حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی حکمت و دانش سے لبریز کتاب نہج البلاغہ آپ کے علم ، حکمت و دانش کا ایسا سورج ہے جو تا قیامت لوگوں کو ہدایت و رہنمائی کے عظیم منبع اسلام کی جانب مبذول کراتا رہے گا ۔حضرت علیؑ نہ صرف مدینہ منورہ کے یہودیوں میں اپنی حکمت و دانش کے باعثمشہور تھے بلکہ مشرکین مکہ بھی آپ کے علم اورعمدہ فیصلوں کے قائل نظر آتے تھے۔ حضرت علی ابن ابی طالب فرماتے ہیں کہ میں نے توریت سے بارہ کلمات اخذ کیے ہیں جن پر روزانہ تین بار غور کرتا ہوں۔ وہ کلمات درج ذیل ہیں۔(ایک) حق تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے ابن آدم.! تجھ کو کسی حاکم اور دشمن حتیٰ کہ جن اور شیطان سے بھی جب تک میری حکومت باقی ہے ہرگز نہیں ڈرنا چاہئے۔( دو) اے آدم کے بیٹے.! تو کسی قوت اورطاقت اور کسی کے باعث روزی ہونے کے سبب اس سے مرعوب نہ ہو جب تک میرے خزانے میں تیرا رزق باقی ہے اور میں تیرا حافظ ہوں اور یاد رکھ میرا خزانہ لافانی اور میری طاقت ہمیشہ باقی رہنے والی ہے۔ (تین) اے ابن آدم.! جب تو ہر طرف سے عاجز ہو جائے اورکسی سے کچھ بھی تجھ کو نہ ملے اور کوئی تیری فریاد سننے والا نہ ہومیں اگر تو مجھے یاد کرے اور مجھ سے مانگے تو میں یقینا فریاد کو پہنچوں گااور جو تو طلب کرے گا دوں گا کیونکہ میں سب کا حاجت روا اور دعاؤں کا قبول کرنے والا ہوں۔(چار) اے اولاد آدم! تحقیق کہ میں تجھ کو دوست رکھتا ہوں پس تجھے بھی چاہیے کہ میرا ہو جا
اور مجھے یاد رکھ۔( پانچ) اے آدم کے بیٹے! جب تک تو پل صراط سے پار نہ ہو جائے تب تک تو میری طرف سے بے فکر مت ہو جانا۔(چھ) اے آدم کے بیٹے.! میں نے تجھے مٹی سے پیدا کیااور نطفہ کو رحم مادرمیں ڈال کر اس کو جما ہوا خون کر کے گوشت کا ایک لوتھڑا بنایا پھر رنگ و صورت اور شکل تجویز کر کے ہڈیوں کا ایک خول تیار کیا پھر اس کو انسانی لباس پہنا کراس میں اپنی روح پھونکی، پھر مدت معینہ کے بعد تجھ کو عالم اسباب میں موجود کر دیا، تیری اس ساخت اور ایجاد میں مجھے کسی قسم کی دشواری پیش نہیں آئی پس اب تو سمجھ لے کہ جب میری قدرت نے ایسے عجیب امور کو پایہ تکمیلتک پہنچایا تو کیا وہ تجھ کو دو وقت کی روٹی نہ دے سکے گی؟ پھرتو کس وجہ سے مجھ کو چھوڑ کر غیر سے طلب کرتا ہے۔( سات) اے آدم کے بیٹے.! میں نے دنیا کی تمام چیزیں تیرے ہی واسطے پیدا کی ہیںاور تجھے خاص اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے مگر افسوس تو نے ان اشیاءپر جو تیرے لیے پیدا کی گئی تھیں اپنے آپ کو قربان کر دیا اور مجھ کو بھول گیا۔(آٹھ) اے آدم کے بیٹے.! دنیا کے تمام انسان اورتمام چیزیں مجھے اپنے لیے چاہتی ہیں اور میں تجھ کو صرف تیرے لیے چاہتا ہوں اور تو مجھ سے بھاگتا ہے۔ (نو) اے آدم کے بیٹے.! تو اپنی اغراض فسانی کی وجہ سے مجھ پر غصہ کرتا ہےمگر اپنے نفس پر میرے لیے کبھی غصہ نہیں ہوتا۔( دس) اے آدم کے بیٹے.! تیرے اوپر میرے حقوق ہیں اور میرے اوپر تیری روزی ساری مگرتو میرے حقوق کی پرواہ نہیں کرتا بلکہ اس کی خلاف ورزی کرتا ہےلیکن میں پھر بھی تیرے کردار پر خیال نہ کرتے ہوئے برابر تجھے رزق پہنچاتا رہتا ہوں اور اس کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔ (گیارہ) اے آدم کے بیٹے!تو کل کی روزی بھی مجھ سے آج ہی طلب کرتا ہے اور میں تجھ سے اس روز کے فرائض کی بجا آوری آج نہیں چاہتا۔(بارہ) اے آدم کے بیٹے! اگرتو اپنی اس چیز پر جو میں نے تیرے مقسوم میں مقدر کر دی ہے راضی ہوا تو بہت ہی راحت اورآسائش میں رہے گا اور اگر تو اس کےخلاف میری تقدیر سے جھگڑے اور اپنے مقسوم پہ راضی نہ ہوا تو یاد رکھ میں تجھ پر دنیا مسلط کر دوں گا اور وہ تجھے خراب و خستہ کرے گی اور تو کتوں کی طرح دروازوں پر مارا مارا پھرے گا مگر پھر بھی تجھ کو اسی قدر ملے گا جو میں نے تیرے لیے مقرر کر دیا ہے۔ (معالی الہمم صفحہ نمبر ۲۲ از حضرت جنید بغدادی)