حضرت عمر کے دور میں خانہ کعبہ کا غلاف اتار کر اس کے ساتھ کیا کیا جاتا تھا اور آجکل کیا کیا جاتا ہے ؟ اایمان افروز تحریر
کعبة اللہ پر غلاف چڑھانے کی رسم بہت پرانی ہے خانہ کعبہ پر سب سے پہلے غلاف حضرت اسماعیل نے چڑھایا تھا۔ ظہو ر اسلام سے قبل بھی حضور اکرمﷺ کا خاندان مکہ مکرمہ میں بہت عزت واحترام سے دیکھا جاتا تھا‘ آپﷺکے جدامجد بھی تمام قبائل میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے‘ انہوں نے بڑی سمجھداری اور فراست سے کام لیتے ہوئے غلاف کعبہ کی
تیاری کےلئے خصوصی بیت المال قائم کیا تاکہ تمام قبائل اپنی حیثیت کے مطابق غلاف کعبہ کی تیاری میں حصہ لے سکیں۔ فتح مکہ کی خوشی پر حضور اکرمﷺ نے یمن کا تیار کیا ہوا‘ سیاہ رنگ کا غلاف اسلامی تاریخ میں پہلی بار چڑھانے کا حکم دیا۔ آپﷺ کے عہد میں دس محرم کو نیا غلاف چڑھایا جاتا تھا‘ بعد میں یہ غلاف عیدالفطر کو اور دوسرا دس محرم کو چڑھایا جانے لگا۔ بعدازاں حج کے موقع پر غلاف کعبہ چڑھانے کا سلسلہ شروع ہو گیا‘ 9اور 10ہجری میں بھی آپﷺ نے حجتہ الوداع فرمایا تو غلاف چڑھایا گیا۔اس زمانے سے آج تک ملت اسلامیہ کو یہ شرف حاصل ہے کہ وہ غلاف خوبصورت اور قیمتی کپڑے سے بنا کر اس پر چڑھاتے ہیں۔ حضور اکرمﷺ کے بعد حضرت ابوبکر صدیق نے اپنے دور میں مصری کپڑے کا قباطی غلاف چڑھایا کرتے تھے۔ سیدنا عمر فاروق پہلے پرانا غلاف اتار کر زمین میں دفن کر دیا کرتے تھے لیکن بعد میں اسکے ٹکڑے حجاج اور غربا میں تقسیم کر دیئے جاتے۔ آج کل یہ ٹکڑے اسلامی ممالک کے حکمرانوں اور اہم شخصیات کو تحفہ میں دیئے جاتے ہیں۔حضرت عثمان غنی اسلام کی پہلی شخصیت ہیں جنہوں نے پرانے غلاف پر غلاف چڑھایا اور سال میں دو مرتبہ کعبہ پر غلاف چڑھانے کی رسم ڈالی۔