Wednesday November 27, 2024

’’جنرل ضیاء کاتقرربہت بڑی غلطی تھی‘‘ ضیاء نے بھٹو سے کہا ’’سر میں بہت معذرت چاہتا ہوں، میں نے الیکشن کا اعلان کر دیا ہے۔ اگر آپ کو الیکشن میں فتح ہو گی تو میں سب سے پہلا شخص ہوں گا جو۔۔!

’’جنرل ضیاء کاتقرربہت بڑی غلطی تھی‘‘ ضیاء نے بھٹو سے کہا ’’سر میں بہت معذرت چاہتا ہوں، میں نے الیکشن کا اعلان کر دیا ہے۔ اگر آپ کو الیکشن میں فتح ہو گی تو میں سب سے پہلا شخص ہوں گا جو۔۔!

ملک غلام مصطفی کھر پاکستان کی سیاسی تاریخ کا نمایاں باب ہیں ان کا کہنا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو ایک ذہین سیاستدان اور لیڈر تھے، ہر سال جب بھٹو کی سالگرہ یا شہادت کا دن آتا ہے تو ان کے ساتھ گزرے لمحے ایک فلم کی مانند دماغ میں چلنے لگتے ہیں۔ بھٹو کے دست راست سابق گورنر کھر نے ایک ملاقات میں اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے بتایا ’’میں ذوالفقار علی بھٹو کو اپنا سیاسی باپ مانتا ہوں جن سے میں نے خوش لباس رہنے کا سلیقہ سیکھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دل میں غریب کے لئے حقیقی محبت تھی وہ اپنے ہر کارکن کو اسکے نام سے مخاطب کرتے تھے۔ بھٹو صاحب کی ذاتی اور سیاسی زندگی کے کئی پہلوہیں جنہیںملکی سیاست اور تاریخ فراموش نہیں کر سکتی۔

بھٹو سے میری دوستی اس وقت ہوئی جب میںایوب خان کے عہد میں قومی اسمبلی میں رکن منتخب ہوا۔کچھ وقت کے بعد مجھے محسوس ہوا کہ اس ملک کی قیادت بھٹو کے پاس ہو تو ملک کی تقدیر بدل جائے۔ ذوالفقار علی بھٹو ہمیشہ مظلوم طبقے کی بات کرتے تھے ۔ ملکی سیاست میں صدرایوب خان اور نواب آف کالا باغ کا ایسا اثر تھا کہ اگر کوئی نمایاں ہونے کی کوشش کرتا تو وہ ان کے مخالف ہو جاتے ۔ ذوالفقار علی بھٹو وزیر خارجہ محمد علی بوگرا صاحب کے اچانک انتقال کر جانے پر اس منصب پر فائز ہوئے صدرایوب خان ان کی ذہانت اور قابلیت کی قدر کرتے تھے۔ فارن منسٹر بننے کے بعد بھٹو کا قومی اور بین الاقوامی سطح پر امیج بننے لگا۔ بھٹو صاحب اسمبلی کے اندر اور باہر کی تقریبات اور غیر ملکی دوروں میں جو باتیں کرتے تھے وہ لوگوں کے دل ودماغ میں بیٹھنے لگ گئیں۔ بھٹو صاحب کا کشمیر پر جو سٹینڈ تھا میں نہیں سمجھتا کہ بھٹو صاحب کے آنے سے پہلے کسی فارن منسٹر نے اس قسم کا سٹینڈ لیا ہو۔ انہوں نے کشمیر کے مسئلے کو ہائی لائٹ اس حد تک کر دیا کہ بین الاقوامی سطح پر ہر جگہ اس پر بات ہونے لگی۔

تاشقند دورے کے موقع پر میں بھٹو صاحب کے ہمراہ تھا، امریکہ کا بہت دبائو تھا۔ اس مسئلے پر وہاں امریکن کو محسوس ہوا کہ ہمارے راستے کی رکاوٹ فارن منسٹر کے طور پر ذوالفقار علی بھٹو ہے۔ انڈیا اور پاکستان کے درمیان ایکارڈ سائن ہوا،جوکافی حد تک بھٹو صاحب کی مرضی کے خلاف تھا ۔ چونکہ بحیثیت ڈکٹیٹر ایوب خان کسی صورت سپر پاور کو نظرانداز نہیں کر سکتے تھے۔ اس وقت بھٹو صاحب فارن پالیسی میںعوام کے دلوں کی ترجمانی کر رہے تھے جبکہ صدر ایوب خان کسی صورت سپرپاور کو ناراض نہیں کرنا چاہتے تھے ۔ بھٹو کی وجہ سے پاکستان کی خودمختار فارن پالیسی سپر پاور امریکہ کو پسند نہیں تھی لہٰذا امریکیوں نے دباؤ بڑھنے لگا کہ بھٹو کو فارن آفیئر سے فوراً علیحدہ کرنا ہو گا۔ یہی بات بھٹو اور ایوب خان کے درمیان فاصلے بڑھانے کا سبب بن گئی۔ ذوالفقار علی بھٹو غریب آدمی کی ترقی کی سوچ رکھتے تھے، اقتدار کے آغاز میں بھٹو صاحب کی ٹیم میں بہت وفادار اور کام کرنے والے لوگ شامل تھے۔ مگر اقتدار میں آنے کے دو سال کے بعد بیورو کریسی کا رول بڑھنے لگا۔ بھٹو صاحب خفیہ ایجنسی کا بھی بہت زیادہ سہارا لینے لگے ۔ بھٹو صاحب کو ہٹانے کا فیصلہ بہت پہلے ہو چکا تھا۔ پہلے ان کو عوام کے ذریعے ہٹانے کی کوشش کی اور تحریک چلائی گئی۔

میں گورنر پنجاب تھا اس لیے کوئی موومنٹ کامیاب نہیں ہوئی۔پھر خفیہ ایجنسیوں نے اپنا طریقہ کار بدلا۔ انہوں نے ایسے حالات پیدا کئے کہ بھٹو کی عوام سے جو وفاداریاں تھیں جن کی وجہ سے ان کی لیڈر شپ کی عمارت کھڑی تھی ان کو دوستوں سے علیحدہ کر دیا گیا اور اس طرح بھٹو کا عوام سے سے بھی تعلق کاٹ دیا گیا۔ بھٹو کے خلاف کوئی سیاسی موومنٹ نہیں چل سکتی تھی۔ اس لئے بھٹو کو ہٹانے اور جنرل ضیاء الحق کو آگے لانے کے لئے امریکہ نے رول ادا کیا۔ جنرل ضیاالحق جب بریگیڈئر تھے ان کو اس وقت سے گروم کیا جا رہا تھا۔ جنرل غلام جیلانی آئی ایس آئی کے انچارج تھے ۔بھٹو صاحب جنرل جیلانی کو اہمیت دیتے تھے ، ان سے مشورہ بھی کرتے تھے اور جنرل جیلانی سی آی اے کے نمبر ون آدمی تھے۔جب ضیاء الحق کو چیف آف آرمی سٹاف بنایا گیاتو مجھ سے بھٹو صاحب نے کہا: دیکھامیں نے جنرل ضیاالحق کو کمانڈنگ اِن چیف بنانے کا کتنا صحیح فیصلہ کیا ہے۔ میں نے ان سے کہا :آپ نے اپنی زندگی میں سب سے غلط فیصلہ یہ کیا ہے۔ وہ ناراض ہوئے اور کہنے لگے کیا بات کرتے ہو یار، سیاست میں نے تمہیں سکھائی ہے تم یہ بات کر رہے ہو۔ میں نے ان سے پوچھا جنرل ضیاالحق کو اس عہدے پر فائز کرنے کی وجہ کیا ہے۔ وہ کہنے لگے کیا جنرل ضیاء الحق خوبصورت ہے؟ میں نے کہا: نہیں۔ کہا: کیاضیاء اچھی انگریزی بول سکتا ہے؟ میں نے کہا :نہیں۔ کہا:ضیاء الحق پنجاب کا بھی نہیں ہے اور مکمل طور پر متاثر کن شخصیت بھی نہیں۔ میں نے کہا: آپ کی ساری باتیں صحیح ہیں لیکن کمزور آدمی ہمیشہ ظالم ہوتا ہے اور ہر قسم کی برائی کر سکتا ہے۔

بھٹو مجھے اپنا نمبر ٹو سمجھتے تھا۔ ایک روز انہوں نے مجھے کہا: مصطفٰی ایک بار مجھے پاور میں آنے دو ،میں آپ کو اپنے ساتھ دوروں پر لے کر جائوں گا۔ فلاں فلاں جگہ دکھائوں گا جب وہ پاور میں آ گئے تو مجھے کہنے لگے شاید آپ کے ساتھ وہ وعدہ پورا نہ کر سکوں میں نے پوچھا کیوں؟ کہنے لگے میں اور آپ کبھی اکٹھے دونوں اس ملک سے باہر نہیں جا سکتے۔میں جب بیرون ملک دورے پر جائوں گا تو اس ملک کا انچارج آپ کو چھوڑ کر جائوں گا۔ یہ حقیقت ہے کہ انہوں نے پوری کیبنٹ اور تمام سیکرٹریز کو بلوا کر کہا تھا کہ میری غیر موجودگی میں مصطفی کھراس ملک کا صدر یا وزیر کا رول ادا کرے گا اور ایسا ہی ہوتا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار سے ہٹانے کے لئے تین کوششیںکی گئیں جس میں دو کُو فوج کے مخصوص جنرلز نے کئے مگر وہ پکڑے گئے پھر ان کو اسمبلی میں ہٹانے کی کوشش کی گئی مگر یہ بھی نہ ہو سکا۔ پھر فیصلہ یہ ہوا کہ بھٹو کہ ہٹانا ہے تو پہلے غلام مصطفی کھر کو راستے سے ہٹانا ہوگا۔ لہٰذاجب سپر طاقتوں نے فیصلہ کیا کہ بھٹو کو ہٹانا ہے تو پنجاب سے میرے خلاف سازشوں کا آغاز ہوا۔ میں نے وہ تمام فائلیں دیکھیں جس میں میرے خلاف زہر اگلا گیا تھا۔ بھٹو نے مجھے بتایا کہ دو ڈھائی سال سے یہ سلسلہ جاری ہے کہ کھر فلاں فلاںغلط کام کرتا ہے۔ مگر بھٹو ان باتوں پر ہنس دیتے کہ یہ مت سمجھنا کہ میں صدرایوب خان ہوں ہم تو کامریڈ ہیں جوہمیشہ ساتھ رہتے ہیں۔

اگر میں گورنر رہتا تو بھٹو تک کوئی ہاتھ نہیں پہنچ سکتا تھا۔ جب77ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت پر جنرل ضیاالحق نے قبضہ کیا تو اُسی صبح ساڑھے تین بجے ذوالفقار علی بھٹو کا مجھے فون آیا۔ بھٹو نے مجھ سے کہا: مصطفٰی کھر تم سچ کہتے تھے فوج آگئی ہے‘‘۔ میں نے ذوالفقار علی بھٹو سے اُسی رات کہا تھا کہ سر مجھے لگتا ہے کہ فوج ٹیک اوور کرلے گی۔ یہ تاریخ میں لکھا گیا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو سے کہا گیا کہ آپ معافی مانگ لیں آپ کو آزاد کر دیا جائے گامگر بھٹو نے ایسا نہ کیا کیونکہ ایک لیڈر کبھی کسی صورت تاریخ کے سامنے رسوا ہونا پسند نہیں کرتا۔ جنرل ضیاء الحق اپنے جرنیلوں کے ساتھ مجھ سے جیل میں ملنے آئے۔ تین گھنٹہ تک میری منتیں کرتے رہے کہ بھٹو کے حوالے سے صرف آپ ہماری مدد کر سکتے ہیں۔ آپ کے خلاف بھٹو نے فائلیں بنوا رکھی ہیں۔ ہم آپ کے لئے وہ کچھ کریں گے جو بھٹو صاحب نے آپ کے لئے سوچا بھی نہیں ہو گا۔ میں نے پوچھا میرا کام کیا ہو گا؟انہوں نے کہا بھٹو کو سیاسی طور پر تباہ کرنا ہے۔ میں نے جنرل ضیاالحق سے کہا سر آپ نے غلط آدمی کا انتخاب کیا ہے۔ میں کسی کو دھوکہ نہیںدے سکتا۔ اسکے بعد انہوں نے فیصلہ کیا کہ بھٹو اور مجھے پھانسی دی جائے۔

میرے حوالے سے میاںطفیل محمد نے جنرل ضیاء سے کہا تھا کہ بھٹو کے ساتھ کھر کوبھی پھانسی دو ورنہ یہ پیپلز پارٹی کو دوبارہ زندہ کر لے گا ۔ ہمیں ریلیز کرنے ضیاء الحق اپنے ساتھی جرنیلوں غلام جیلانی وغیرہ کے ساتھ سہالہ آئے۔ ضیاء نے بھٹو سے کہا ’’سر میں بہت معذرت چاہتا ہوں آپ کو تکلیف ہو ئی مگر یہ میری مجبوری تھی۔ ساتھی فوجی افسران کا مجھ پر بہت دبائو تھا۔ میں آپ کو چھوڑنے آیا ہوں۔ میں نے الیکشن کا اعلان کر دیا ہے۔ اگر آپ کو الیکشن میں فتح ہو گی تو میں سب سے پہلا شخص ہوں گا جو آپ کو سلیوٹ کرے گا۔ بھٹو صاحب بہت غصے میں تھے انہوں نے کہا: جنرل صاحب آپ نے آئین کا آرٹیکل 6 پڑھا ہے؟ جنرل ضیاء کا رنگ پیلا ہو گیا۔ جب وہ چلے گئے تو میں نے بھٹو صاحب سے کہا: سر آپ نے جنرل ضیاء الحق کو یہ بات کہہ کر اپنی زندگی کی سب سے بڑی غلطی کی ہے۔ وہ سمجھ گیا ہے کہ آپ اسے نہیں چھوڑیں گے۔ جو شخص اب پاور میں ہے وہ کیسے چاہے گا کہ آپ دوبارہ پاور میں آئیں ۔ میرے فوج میں تعلقات ہیں میں نے فوج‘ ملک اور بھٹو صاحب کے Intrest میں یہ سوچا کہ کسی صورت بھٹو کی بر سر اقتدار فوجی قیادت سے صلح ہو جائے۔ اس کیلئے ہمارے مذاکرات کامیاب ہوگئے اور فیصلہ ہو گیا کہ بھٹو صاحب کو ایک سال کے لئے بیرون ملک بھیج دیا جائے گا اور اس میں شیخ زید ، کرنل قذافی اور بھی کچھ لوگ گارنٹر تھے۔ مگر بعد میں ہونے والے واقعات نے صورت حال تبدیل کردی۔

FOLLOW US