اُس قلعے کا دروازہ جسے شیر خدا حضرت علی ؓ نے ایک ہاتھ سے اٹھا کر پھینک دیا تھا اسے کتنے درجن لوگ بھی مل کر نہ اٹھا سکے تھے ؟؟؟ جان کر آپ بھی نعرہ تکبیر بلند کر دیں گے
حضرت علیؓ کی شجاعت کا شہرہ عرب و عجم میں پھیلا ہوا تھا۔ آپ نے سوائے غزوہ تبوک کے ہر غزوہ میں حضرت محمدؐ کے ساتھ نہ صرف شرکت کی بلکہ اپنی شہسواری، قوت بازو اور شمشیر زنی کا لوہا منوایا۔ ہجرت مدینہ کے وقت سرکار اقدس حضرت محمدؐ نے مکہ والوں کی امانیں آپؐ کے سپرد کیں اور اپنے بستر مبارک پر سونے کا کہا اور آپؐاُس بستر پر
بے خوف سوئے جب مشرکین مکہ حضرت محمدپاکؐ کو (نعوذ باللہ) قتل کرنے کے در پے تھے۔ غزوہ احدمیں جب کفار نے شکست کھاکر مسلمانوں کی غلطی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دوبارہ واپس حملہ کیا تو مسلمانوں کو بہت سا جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑا ایسے موقع پر کفار کے کئی گروہ وجہ تخلیق کائنات حضرت محمدؐکو (نعوذ باللہ) قتل کرنا چاہتے تھے تو حضرت علی ؓ نے ان کی کئی گروہوں سے بڑی دلیری اور بہادری سے مقابلہ کیا آپ کی بہادری دیکھ کر حضرت جبرائیل ؑ نے آکر حضور اقدسؐ سے آپ کی بہادری کی تعریف کی۔ آپؐ نے فرمایا’’بے شک علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں‘‘ فتح خیبر میں آپ کی بہادری اور قوت کا کوئی اندازہ نہیں کرسکتا کہ جب مسلمان قلعہ خیبر کو کافی کوشش کے باوجود فتح نہ کرسکے تو سرکار اقدس حضرت محمدؐ نے فرمایا کہ میں یہ جھنڈااسلام کل ایسے شخص کو دوں گا جس کے ہاتھ سے اللہ تعالیٰ فتح عطافرمائے گا وہ اللہ اور رسولؐ کو دوست رکھتا ہے اور اللہ اور رسول اُس کو دوست رکھتے ہیں۔ ہرصحابی کی یہ تمنا اور آرزو تھی کہ یہ جھنڈا مجھے ملے لیکن کل یہ جھنڈا آشوب چشم میں مبتلا دکھتی آنکھوں والے
حضرت علی ؓ کو ملا۔ سرکار دو عالمؐ نے ان کی آنکھوں پر اپنا لعاب دہن لگایا تو وہ بالکل ٹھیک ہوگئیں۔ آپ نے مرحب جیسے نامی گرامی گھمنڈ والے پہلوان اور جنگجو کا غرور ایک ہی وار میں خاک میں ملادیا۔ آپ نے قلعہ کا دروازہ ایک ہی ہاتھ سے اکھاڑ پھینکا جو کہ بعد میں چالیس آدمیوں سے کم لوگوں سے نہ آٹھایا جاسکا اور فتح یقینی ہوگئی۔ غزوہ تبوک میں
سرکار دو عالمؐ نے آپ کو اپنا نائب بنا کر مدینہ منورہ چھوڑا اور فرمایا ’’کہ کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہوکہ میں تمہیں اس طرح چھوڑے جائوں کہ جس طرف حضرت موسیٰ ؑ حضرت ہارون ؑ کو چھوڑ گئے تھے البتہ فرق صرف اتنا ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔‘‘