میری بیٹی طوائف ہے
زندگی کے پیچیدہ اور کانٹوں بھرے راستوں پر مسلسل سفر کرتے، عینی کے لہو لہان پیر کب کے تھک چکے تھے. کچی قبرکی تہہ میں رکھا، سفید کفن میں لپٹا اسکا نازک وجود، اس تکان کی گواہی دے رہا تھا. گورکن نے سیمنٹ کی پہلی سلیب اٹھائی ہی تھی، کے میں نے اسے روک دیا. بغل میں دبائی سنہرے بالوں اور نیلی آنکھوں والی گڑیا نکالی اور نیچے اتر کر عینی کے پہلو میں احتیاط کے ساتھ، رکھ دیخدا حافظ عینی!’ میں نے اس کے پھول سے وجود کو بھاری دل کے ساتھ الوداع کہا ۔جاری ہے ۔
اور کفن کے اوپر سے ہی، اس کی پیشانی چوم لیمیرا نام قباد ہے، قباد کامران. عمر تقریباً ساٹھ سال. کسی زمانے میں کراچی یونیورسٹی کے شعبہ سوشیالوجی میں پڑھاتا تھا. آباؤ اجداد کی چھوڑی ہوئی بےتحاشہ زمین تھی. کسی شےکی کمی نہیں تھی. اچھے لباس پہننے کا، اچھی موسیقی سننے کا، اچھی کتابیں پڑھنے کا اور اچھی گاڑیاں رکھنے کا شوق تھا شادی بہت چھوٹی سی عمر میں ہی ہوگئ تھی. خوشقسمتی سے ہماری شادی ان چند شادیوں میں شامل تھی جو والدین کی جانب سے کی جانے کے باوجود، کامیاب ہوجاتیں ہیں. مجھے اس سے بےتحاشا محبت تھی اور وہ بھی میرے اوپر جان چھڑکتی تھی. لیکن شاید محبت میں کوئی کمی رہ گئ تھی، یا شاید میں بہت بدقسمت تھا، کیونکہ وہ شادی کے پانچویں ہی سال، کینسر کے ہاتھوں اللہ کو پیاری ہوگئ. شادی کی ایک نشانی نتاشہ کی شکل میں میرے پاس چھوڑ گئ. نتاشہ میری اکلوتی اولاد تھی اور میرے دل کا ٹکڑا. میں نے دوبارہ شادی نہیں کی. دراصل نتاشہ کی ماں نے معیار کا سانچہ ہی ایسا بنا دیا تھا، کے اور کوئی عورت، اس میں فٹ نہیں بیٹھتی تھیمیری ساری زندگی نتاشہ کے گرد مدار میں چکّر لگانے لگی. میں اس کا باپ بھی تھا اور ماں بھی. وہ کیا پہننا پسند کرتی تھی، وہ کیا کھانا پسند کرتی تھی، وہ کس چیز سے الرجک تھی، سب کا خیال میں خود رکھتا تھا. ہم دونوں باپ بیٹی کی زندگی میں کسی تیسرے کی گنجائش نہیں تھیمجھے پڑھانے کا بہت شوق تھا. اچھی بھلی نوکری چل رہی تھی. پھر اچانک ایک دن میری اکلوتی جوان بیٹی مجھ سے ناراض ہوکر چلی گئ. وہ مجھے چھوڑ کر کیا گئ، سب ختم ہوگیا. میں نے نوکری چھوڑ دی اور گھر بیٹھ گیا. صرف اشد ضرورت کے تحت گھر سے نکلتا. باقی کا سارا وقت کتابوں میں گزرتا. کبھی کبھی آس پڑوس سے ایک دو دوست ملنے آ جاتے لیکن وہ بھی کچھ دیر بیٹھنے کے بعد چلے جاتے. اچھی طرح جانتے تھے ۔جاری ہے ۔
کے مجھے لوگوں سے وحشت ہوتی تھیمیں کراچی میں، کلفٹن میں واقع سمندر کے کنارے، ایک لگژری فلیٹ میں رہتا تھا. نتاشہ کے چلے جانے کے بعد بہت دفعہ سوچا کے، سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر گاؤں چلا جاؤں لیکن فلیٹ کے ہر کمرے سے، میری بیٹی کی خوشبو آتی تھی. جب بھی جانے کا سوچتا، وہ خوشبو قدم جکڑلیتی تھیفلیٹوں میں رہنے والے باقی لوگوں میں زیادہ تر عیاش پسند امیرزادے تھے جو رہتے تو کہیں اور تھے، لیکن فلیٹوں کو عیاشی کے اڈوں کے طور پر استمعال کرتے تھے. خیر انکی وجہ سے کبھی کوئی مسلہء نہیں ہوا. زمانہ ہی ایسا ہے کے اپرکلاس میں کسی کے پاس دوسرے کی زندگی میں جھانکنے کا یا دلچسپی لینے کا وقت ہی نہیںایک دن طوفان آنے کو تھا. ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر بار بار کراچی کے مکینوں کو سمندری طوفان کی ممکنہ تباہ کاریوں سے آگاہ کیا جا رہا تھا. لیکن مجھے طوفان بہت پسند ہیں. عجیب سی بات ہے لیکن جتنا طوفان شدید ہو، میرے اندر اتنا ہی زیادہ سکون موجیں مارتا ہے. میں نے کھڑکی سے باہر سمندر کی طرف جھانکا تو لہریں غیض و غضب ڈھارہی تھیں. سورج ابھی غروب نہیں ہوا تھا لیکن باہر تاریکی چھاچکی تھی. پورا آسمان سرمئی کالے بادلوں سے ڈھکا پڑا تھا اور ہوائیں پام کے نازک درختوں کو دوہرا کئے دے رہی تھیںمیں نے پائپ سلگانے کو تمباکو کی تھیلی نکالی تو صرف چٹکی بھر تمباکو دیکھ کر پریشان ہوگیا. تمباکو کے بغیر میرا گزارا نہیں ہوتا. اپنی یاداشت کو کوستے، لباس تبدیل کیا اور گاڑی کی چابی اٹھا کر، تمباکو خریدنے نکل کھڑا ہوا. میرا فلیٹ پانچویں منزل پر ہے. باہر لابی میں نکل کر لفٹ کا بٹن دبایا تو پتہ چلا کے چاروں لفٹوں میں سے صرف ایک ہی کام کر رہی تھی. خیر خدا خدا کر کے لفٹ کا دروازہ کھلا اور دروازہ کھلتے ہی ایک دلنشیں خوشبو نے مجھے اپنے حصار میں گھیرلیالفٹ خالی نہیں تھی. اس میں ایک اکیلی لڑکی کھڑی میری طرف دیکھ کر مسکرا رہی تھی. تقریباً اکیس یا بائیس کا سن، اور اونچا لمبا قد. کھلتا ہوا گندمی بے داغ رنگ اور متانسب جسم. اس نے بال غالباً کسی بہت اچھی جگہ سے رنگواے تھے.تھے تو گہرے سرخی مائل بھورے رنگ کے مگر ان میں کہیں کہیں سنہرا رنگ جھلک رہا تھا. اونچی روشن پیشانی اور دو گھنی بھنووں تلے بادامی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک نمایاں تھی. کانوں میں جدید وضع کے لمبے بندے لٹک رہے تھے. لڑکی نے نیلی اڑی رنگت کی چست جینز پہنی ہوئی تھی اور اوپر اسی رنگت اور کپڑے کی جیکٹ. پاؤں میں ٹخنوں تک چڑھے چمڑے کے بھورے جوتے.آپ اوپر جا رہی ہیں یا نیچے؟’ میں نے اس سے پوچھا تو وہ ہنس پڑی’‘آپ کو کہاں جانا ہے؟’.جی مجھے تو نیچے بیسمنٹ میں واقع پارکنگ میں جانا ہے.’ میں نے کچھ شرمندہ سا ہوتے ہوئے کہا’ ۔جاری ہے ۔
آپ اندر آ جایئے. میں پہلے آپ کو بیسمنٹ میں اتار دوں گی.’ اس نے مہربانی سے کہا تو میں انکار نہیں کر سکا’اس نے دروازہ بند ہوتے ہی پندھرویں منزل کا بٹن دوبارہ دبا کر کینسل کیا تو میں مزید شرمندہ ہوگیا. خیر کیا ہوسکتا تھا. میں خاموش کھڑا اسکا جائزہ لیتا رہا اور وہ کھڑی مسکراتی رہی. آپ میرے اسے غور سے دیکھنے کا، کوئی غلط مطلب نا تلاش کریں. اس لڑکی میں ایک عجیب سی کشش تھی. کوئی ایسی چیز ضرور تھی جو مجھے اپنی نتاشہ کی یاد دلا رہی تھیبہت شکریہ بیٹے. میں معذرت خواہ ہوں کے تمھیں میری وجہ سے نیچے تک آنا پڑا.’ بیسمنٹ میں پہنچ کر لفٹ کا دروازہ کھلا، تو میں نے شفقت سے اسکا شکریہ ادا کیا.جی کوئی بات نہیں.’ اس نے نہایت شستہ لہجے میں جواب دیا’لفٹ کا دروازہ بند ہوا تو میں نے سر جھٹکا اور گاڑی کی طرف بڑھ گیا آس پاس کی کسی دکان پر میرا پسندیدہ تمباکو نہیں ملتا تھا. لہٰذا مجھے صدر تک جانا ہی پڑا. تمباکو خرید کر دوکان سے باہر نکلا تو ہلکی ہلکی بارش شروع ہو چکی تھی. میں نے گاڑی میں بیٹھ کر پائپ سلگایا، ڈیک پر محموت اورحان کی ایک پسندیدہ دھن لگائی اور پھر بے مقصد کراچی کی سڑکوں پر چکّر لگانے لگا. یہ شہر مجھے بیحد پسند ہے. گنجان آباد ہونے کے باوجود اس شہر کی شاموں میں، ایک عجیب سی تنہائی رچی بسی ہوتی ہے. یہاں لوگوں کا ہجوم ہونے کے باوجود ہر شخص اکیلا دکھائی دیتا ہے. یا شاید لوگ اکیلے نہیں تھے، میرا اپنا دل اکیلا تھا. دھیمے غمناک سروں میں وائلن بجتا رہا اور میں دنیا دیکھتا رہاشہر کی گیلی چمکتی سڑکوں پر پھرتے پھرتے کب شام گہری رات میں ڈھل گئ، احساس ہی نہیں ہوا. بارش کچھ زیادہ ہی تیز ہوگئ تو گھر واپس جانے کا سوچا. جب میں نے فلیٹوں کی بیسمنٹ میں لے جا کر گاڑی کھڑی کی تو تقریباً آدھی رات ہو چلی تھی. میں گاڑی لاک کر کے لفٹ کی جانب بڑھا ہی تھا کے ایک نسوانی کراہ میرے کان میں پڑی. میں نے چونک کر ادھر ادھر دیکھا. مجھے ایک سلیٹی رنگ کی کلٹس کے ساتھ وہ ہی لڑکی نظر آئ. لیکن غالباً کچھ گڑبڑ تھی. وہ گاڑی کے بونٹ کے اوپر ہاتھ ٹکا ئے جھکی کھڑی تھی. میرے دیکھتے ہی دیکھتے اس نے ایک زوردار ابکائی لی اور پھر کمزوری سے وہیں بونٹ کے اوپر گر گئمیں تیزی کے ساتھ آگے بڑھا اور اسے سنبھالنے کی کوشش کی.ارے کیا ہوا آپ کو؟’ میں نے اسے بازو سے پکڑ کر کھڑا کرنے کی کوشش کرتے ہو ئے پوچھا’می….میں نے……شا….شاید کوئی زہ……زہریلی چیز کھ….کھا لی ہے.’ اس نے لڑکھڑاتے لہجے میں مجھے بتانے کی کوشش کی. ۔جاری ہے ۔
آپ کا فلیٹ کونسا ہے؟ گھر پر اور کون ہے؟’ میں نے گھبرا کر پوچھا’میں…..یہاں نہ……نہیں رہتی……ڈاکٹر….ہس …..ہسپتال!’ اس کے منہ سے ٹوٹے پھوٹے الفاظ نکلے اور وہ بیہوش ہوگئمیں اسے بمشکل گھسیٹ کر اپنی گاڑی تک لیکر گیا اور پھر کچھ سوچ کر اپنے ایک ڈاکٹر دوست کو کال کی، جو قریب ہی ایک پرائیویٹ کلینک چلاتا تھا. خدا کا شکر ہوا، وہ پہلے ہی کسی ایمرجنسی کے سلسلے میں کلینک پر موجود تھامیرے دوست نے اس کے معدہ کی اچھی طرح صفائی کی اور پھر کچھ دوائیاں تجویز کر کے مجھے کمرے سے باہر لے گیا.یہ کیا چکّر ہے؟’ اس نے مجھ سے پوچھا تو میں نے ساری کہانی سنا دی’لڑکی نے غالباً پہلی دفعہ میجک مشروم کا استمعال کیا ہے. شاید اسکو پتہ ہی نہیں تھا کے یہ کیا چیز منہ میں ڈال رہی تھی. خیر میں نے صفائی کر دی ہے. خطرے کی کوئی بات نہیں. دوائیوں کے باعث صبح تک غنوندگی کا گہرا اثر رہے گا. تم اس کو لے جا سکتے ہو. لیکن خیال رہے کے اگلے کچھ دن اسکو آرام کرنا چاہیےمیں بمشکل سہارا دے کر اسے گاڑی تک لے گیا اور اگلی سیٹ لمبی کر کے اسے آرام سے لٹادیاکیا نام ہے تمہارا بیٹی؟ کہاں رہتی ہو؟’ گاڑی سٹارٹ کر کے میں نے اس سے پوچھا. کوئی جواب نا ملنے پر اسکی طرف دیکھا تو وہ دنیا و مافیا سے بے پرواہ بیہوش پڑی تھیبڑی مشکل کی بات تھی. جوان لڑکی تھی. رات بھی بہت بھیگ چکی تھی. نجانے کہاں رہتی تھی؟ خیر کچھ دیر سوچ کر میں اسے، اپنے فلیٹ پر واپس لے گیا. وہ تو خدا کا شکر ہوا کے لفٹ ابھی تک چل رہی تھی، ورنہ میں اس عمر میں کہاں اٹھا کر لے جاتا. پھر وہ کچھ کچھ ہوش میں بھی آ چکی تھی. بول تو نہیں پا رہی تھی مگر کم از کم اس کا پورا بوجھ مجھے اٹھانا نہیں پڑ رہا تھامیں اسکو سیدھا ٹی وی لاؤنج میں لیکر چلا گیا. صوفے پر احتیاط سے بٹھایا، اور کچن سے ایک اورنج جوس کا گلاس لیکر آیا. وہ کچھ نہیں بولی، بس خالی خالی آنکھوں سے مجھے دیکھتی رہی اور چپ چاپ جو کہتا گیا، کرتی رہی. پھر جوس کا ایک گھونٹ بھر کر بولیآئ ایم…… سوری! مے……..میری وجہ سے…آ…آ… آپ کو بہت تکلیف ہوئی.’ نقاہت کے سبب اسکی زبان ابھی تک لڑکھڑا رہی تھی‘کوئی بات نہیں بیٹے. تم چپ چاپ جوس پیو’.تمہارا نام کیا ہے بیٹے؟’ کچھ دیر کی خاموشی کے بعد میں نے پوچھا’‘جی عینی……!’ اس نے دھیمے سے جواب دیا. پھر کچھ سوچ کر کہنے لگی. ‘پورانام……..قرات العین’بہت پیارا نام ہے. بالکل تمھاری طرح.’ میں نے مسکرا کر کہا. پتہ نہیں کیا بات تھی لیکن میرے دل میں اس بچی کیلئے یکایک محبت اور شفقت کا سمندر موجیں مارنے لگا تھااس نے جوس پی لیا اور دوبارہ گردن پیچھے ٹیک کر آنکھیں موندنا ہی چاہتی تھی کے میں نے اسکا بازو پکڑ کر احتیاط سے اسے اٹھایا اور نتاشہ کے کمرے میں لے گیانتاشہ کے جانے کے بعد سے اسکا کمرہ ویسے کا ویسا ہی تھا. ہلکی گلابی اور کاسنی رنگ کی دیواریں، ایک کونے میں اسکا بچپن کا سفید کاٹ اور اس کے اندر اسکے پرانے کھلونے. الماری میں ڈھیر ساری کتابیں اور دیواروں پر لگے مغربی پاپ موسیقاروں اور گلوکاروں کے اونچے اونچے پوسٹر. ایک دیوار صرف نتاشہ کی اپنی اور میرے ساتھ کھینچی لاتعداد تصویروں کے لئے مخصوص تھی. کتنی حیرت کی بات تھی. میرا اور میری بیٹی کا ساتھ کہنے کو تو پچیس سالوں پر محیط تھا لیکن وہ پچیس سال صرف پچیس تیس رنگین کاغذ کے ٹکڑوں میں سمٹ آ ئے تھے ۔جاری ہے ۔
عینی حیرانگی سے کمرے کو دیکھتی رہی. میں نے اس کو بستر پر لٹایا، آرام سے اسکے جوتے اور موزے اتارے، جیکٹ اتاری. پھر واش روم سے گرم پانی میں تولیہ بھگو کر لایا اور اچھی طرح سے اس کا چہرہ اور گردن صاف کئے‘تم آرام سے سو جاؤ. صبح تمھاری طبیعت سنبھل جائے گی تو جہاں کہو گی چھوڑ آؤں گا’میں لائٹ آف کر کمرے سے نکلنے لگا تو اس نے کہا‘مجھے اندھیرے سے بہت ڈر لگتا ہے. اگر ممکن ہو تو لائٹ جلی چھوڑ جایئں’میں نے مسکرا کر بیڈ کی سائیڈ ٹیبل کے ساتھ لگا سوئچ آن کیا تو کمرے کی چھت پر، ستارے چمکنے لگے اور پوشیدہ سپیکروں سے، بہتے پانی اور سرسراتی ہوا کی سکون آمیز سرگوشیاں پھیلنے لگیں. میں نے نتاشہ کی خاص فرمائش پر یہ سسٹم باہر سے منگوا کر لگایا تھااب ٹھیک ہے؟’ میں نے مسکراتے ہوئے عینی سے پوچھا اور اسکے معصومیت سے اثبات میں سر ہلانے پر، اسکے سر پر شفقت سے تھپکی دی.’سو جاؤ شاباش. تمھیں یہاں کوئی نہیں تنگ کرے گاوہ رات میں نے ٹی وی لاؤنج میں آرام کرسی پر، پائپ اور کافی پیتے گزار دی. کھڑکی سے رہ رہ کر چمکتی بجلی طوفان کی شدّت کا احساس دلا رہی تھی. کبھی کبھی بجلی کڑک کر سمندر کے سیاہ پانیوں سے بغلگیر ہوتی، تو پورا منظر روشن ہوجاتا. باہر طوفان ضرور شدّت پر تھا مگر میرا فلیٹ ساونڈ پروف ہونے کی وجہ سے بالکل خاموش تھا. صبح ہونے کو تھی جب آرام کرسی پر بیٹھے بیٹھے، میری آنکھ لگ گئ.سر یہ کافی……..!’ کسی نے نرمی سے میرا کندھا دبایا تو میں چونک کر اٹھا’عینی میرے سامنے کافی کا بھاپ اڑاتا مگ لئے کھڑی تھی. وہ شاید نہا دھو کر آئ تھی، کیونکہ اسکے بالوں میں ابھی تک نمی موجود تھی اور چہرہ میک اپ سے عاری، صاف شفّاف تھا. بالکل ویسے ہی جیسے، بارش میں دھل کر پھول نکھر جاتے ہیں. میں نے گھڑی پر نظر ڈالی تو صبح کے نو بج چکے تھے. باہر ابھی تک شدید بارش ہورہی تھی.ارے تم نے کیوں تکلیف کی؟’ میں نے مگ پکڑتے ہوئے کہا’.تکلیف کیسی سر؟ اور پھر آپ نے بھی تو میرے لئے پوری رات جاگتے گزار دی.’ اس نے مسکرا کر کہا’‘اچھا تم بیٹھ کر ٹی وی دیکھو. میں ذرا فریش ہو آؤں. پھر مل کر ناشتہ کرتے ہیں’میں نہا دھو کر اور کپڑے تبدیل کر کے آیا تو عینی کھڑکی سے لگی کھڑی، باہر موسم کا نظارہ کر رہی تھیمجھے بارشیں بہت پسند ہیں سر. اندر باہر موسم ایک ہوجاتا ہے.’ میرے قدموں کی چاپ سن کر اس نے مڑ کر میری طرف دیکھاہاں…! صحیح کہتی ہو. مجھے بھی بارشیں بہت اچھی لگتی ہیں.’ میں نے کھڑکی سے باہر جھانکتے ہوئے کہا. ‘لیکن میری نتاشہ کو بارشیں بالکل پسند نہیں تھیں. وہ دھوپ میں کھیلتی تتلی تھی. اسے سورج کی حرارت اچھی لگتی تھی‘نتاشہ آپ کی بیٹی ہے؟ میں رات کو اسکے کمرے میں سوئ تھی؟’.ہاں……! وہ کمرہ نتاشہ کا ہی ہے.’ میں نے سر ہلاتے جواب دیا’.اب کہاں ہے وہ؟’ عینی نے میرے لہجے میں افسردگی محسوس کرتے ہوئے پوچھا’‘چلی گئ. مجھ سے ناراض ہوکر چلی گئ’‘کہاں چلی گئ؟ ۔جاری ہے ۔
آپ تو اتنے اچھے ہیں پھر وہ آپ سے ناراض کیوں ہوگئ؟ اور آپ نے اسکو جانے کیسے دیا؟’عینی نے پے در پے سوال پوچھے تو میں اپنی یادوں کے چنگل سے باہر نکل آیاچھوڑو اس بات کو. بہت لمبی کہانی ہے. جانا یا رکنا ہمارے اپنے ہاتھ میں کہاں ہے؟ اور پھر جو جانا چاہے، اسے روکا نہیں جا سکتا.’ میں نے ایک اداس مسکراہٹ کے ساتھ اسکی طرف دیکھا‘خیر یہ ہم کن باتوں میں پڑ گئے؟ میں نے تمہاری صحت کے بارے میں تو پوچھا ہی نہیں’.میں بالکل ٹھیک ہوں سر. بس تھوڑی سی کمزوری ہے.’ اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا’خیر کمزوری کا تو کوئی مسلہء نہیں. ابھی ٹھیک کئے دیتے ہیں.’ میں ناشتہ بنانے کچن میں گیا تو وہ میرے ساتھ ہی چلی آئ.ڈاکٹر نے کہا ہے کے ابھی کچھ دن تمھیں آرام کی ضرورت ہے.’ میں نے برنر جلاتے ہوئے کہا’.میرے پیشے میں آرام ممکن نہیں ہے سر.’ اس نے کاونٹر پر ٹیک لگاتے ہوئے کہا’‘کیوں….؟’ میں نے چونک کر پوچھا. ‘تم ایسا کیا کرتی ہو، کے آرام ممکن نہیں؟’اپنے جواب میں صرف خاموشی پا کر میں نے مڑ کر دیکھا تو وہ چپ چاپ سر جھکا ئے کھڑی اپنی انگلیاں مروڑ رہی تھی. پھر اس نے اپنی معصوم آنکھیں اٹھا کر میری طرف دیکھا اور دھیمے سے بولی‘میں ایک پروسٹیچوٹ ہوں سر……ایک ہائی کلاس کال گرل’ہوں……!’ میں ایک لمبا ہنکارا بھر کر خاموش ہوگیا. پھر فرج کھول کر انڈے اور ٹماٹر نکالے اور چھری کی تلاش میں کاونٹر کی طرف دیکھا جہاں وہ کھڑی تھی‘بیٹے ذرا اپنے پیچھے دراز سے مجھے چھری تو نکال کر دینا’.جی……..؟’ وہ حیرت سے کچھ زیادہ نہیں بول سکی’.چھری……جس سے ٹماٹر کاٹتے ہیں.’ میں نے مسکراتے ہوئے کہا’.جی…!’ اس نے مڑ کر دراز سے چھری نکالی اور میرے بڑھے ہاتھ میں تھما دی’سر آپ کو برا نہیں لگا سن کر؟’نہیں تو. برا کیوں لگے گا؟ لیکن میں تھوڑا اداس ضرور ہوگیا ہوں. یہ تمھارے کھیلنے اور پڑھنے کے دن ہیں. جسم بچنے کے نہیں.’ میں نے ٹماٹر کاٹتے ہوئے جواب دیاعجیب آدمی ہیں آپ سر. یہ جان کر کے میں ایک کال گرل ہوں، مرد یا تو شوقین نگاہوں سے گھورتے ہیں، یا میرا ایک رات کا ریٹ پوچھتے ہیں اور یا پھر استغفراللہ کہ کرنفرت سے منہ پھر لیتے ہیں.’ اس نے حیرانگی سے کہامیں ذرا مختلف قسم کا انسان ہوں. میرے اپنے گناہ اسقدر زیادہ ہیں کے میں کسی کو برا سمجھنے کے بارے میں سوچ ہی نہیں سکتا. اور پھر مجھے مجبور لوگوں سے محبت ہے‘یہ کس نے کہا کے میں مجبور ہوں؟’.کہا تو کسی نے نہیں لیکن بہت دنیا دیکھی ہے میں نے.’ میں نے بدستور ٹماٹر کاٹتے ہوئے کہا’یہ بھی تو ہوسکتا ہے کے میں مجبور نا ہوں بلکہ کال گرل بننا میری خواہش ہو؟’ اس نے مجھے کریدتے ہوئے پوچھاہاں! بالکل ہوسکتا ہے لیکن خواہشوں کی مجبوری بھی تو مجبوری ہی ہے. ۔جاری ہے ۔
اور نیک اور گناہگار، ہم سب اپنی اپنی خواہشوں کی گٹھریاں کندھوں پر اٹھا کر چلتے ہیںاور بھلا آپ کو مجبور لوگوں سے کیوں محبت ہے؟’دیکھو بیٹی، اس دنیا میں ہر انسان محبت کا حقدار ہے. مجبور لوگوں سے محبت کرنا تھوڑا مشکل ضرور ہے لیکن بہت ضروری ہے. اسی لئے تو ہمیں پیدا کیا گیا ہےچھوڑو اس بات کو. تم یہ بتاؤ کے تم کال گرل کیسے بنی؟’ میں نے پوچھا تو وہ ہنس کر بولی’‘یہ لمبی کہانی ہے سر’میں بھی ہنس کر دوبارہ ناشتہ بنانے میں مگن ہوگیاناشتے سے فارغ ہوئے تو بارش ابھی بھی لگاتار جاری تھی. اس بیچاری کے پیٹ میں ابھی ناشتہ گئے تھوڑی دیر ہی ہوئی تھی کے وہ ایک ابکائی لیکر واش روم کی طرف دوڑی. تھوڑی ہی دیر میں سب کھایا پیا نکل گیا اور وہ کمزوری سے نڈھال ہوگئ. میں نے ڈاکٹر کی دی ہوئی دوائیاں دیکر اسے پھر سلا دیا اور خود بھی اپنے بیڈروم میں جا کر لیٹ گیا. آنکھ ایسی لگی کے مغرب کے وقت کھلی. میں نے عینی کو چیک کیا تو وہ بدستور سوئی ہوئی تھی. میں نے اسے جگانا مناسب نہیں سمجھا اور ایک کتاب اٹھا کر دوبارہ لاؤنج میں بیٹھ گیارات کے دس بجے تو میں نے پھر سے عینی پر ایک نظر ڈالنے کا سوچا. وہ کچھ کسمسا سی رہی تھی اور میرے دروازہ ہلکے سے کھٹکھٹانے پر ہی اٹھ کر بیٹھ گئ‘بہت دیر ہوگئ ہے سر.’ اس نے پریشانی سے کہا. ‘پلیز مجھے میرے گھر چھوڑ آیئں’‘ہاں ضرور. کہاں رہتی ہو تم؟’میں یہیں قریب ڈیفنس میں، ایک چھوٹے سے فلیٹ میں، اپنی دو سہیلیوں کے ساتھ رہتی ہوں.’ اس نے بستر سے اٹھتے ہوئے جواب دیا مگر پھر چکرا کر واپس گر گئتمھاری حالت ٹھیک نہیں ہے عینی. تمھیں ابھی آرام کی ضرورت ہے. تم ایسا کرو، فون کر کے اپنی سہیلیوں کو بتا دو کے تم میرے ہاں ہو.’ میں نے اس کے اوپر کمبل درست کرتے ہوئے کہاآپ سمجھ نہیں رہے سر.’ اس کی آنکھوں میں وحشتوں کے سایے رقصاں تھے. ‘سہیلیوں کا مسلہء نہیں ہے. مسلہء پیٹر کا ہے.پیٹر؟ پیٹر کون؟’ میں نے حیرانی سے پوچھا’پیٹر میرا پمپ ہے سر…….دلال!’ اس نے تھوڑا شرمندہ ہوتے ہوئے کہا. ‘وہ مجھے ڈھونڈ رہا ہوگا. نہیں جاؤں گی تو، مار مار کر لہولہان کر دے گااوہ!’ میں پریشان ہوکر وہیں اس کے پاس بیٹھ گیا. ‘مگر تمھاری حالت ایسی نہیں کے تم جا سکو. کیا تم پیٹر کو بتا نہیں سکتی کے تم دو تین دن کیلئے فارغ نہیں ہو؟پیٹر کے نزدیک میں صرف ایک بزنس پروڈکٹ ہوں سر. وہ مجھے نوچنے کے پیسے لیتا ہے. اسے میری صحت سے کوئی سروکار نہیں.’ اس کے چہرے پر ابھی بھی سراسیمگی تھی‘تو تم اسکو بتا دو کے کل جس کے پاس تھی، آج بھی وہیں ہو’یہ کام ایسے نہیں ہوتا سر. وہ میرے گاہک سے رات کے پیسے ایڈوانس میں لیتا ہے.’ اس نے ہاتھ ملتے ہوئے جواب دیا.کتنے پیسے ……کتنے پیسے ہوتے ہیں ایک رات کے؟’ میں نے ہچکچاتے ہوئے پوچھا’ ۔جاری ہے ۔ ۔جاری ہے ۔
.پچیس ہزار!’ اس نے سر جھکا کر جواب دیا’‘اگر میں اس کو جا کر ایک لاکھ دے دوں تو وہ اگلے چار روز، تمھیں تنگ تو نہیں کرے گا؟’‘آپ دیں گے پیسے؟’ عینی نے ششدر ہو کر پوچھا. ‘آپ کیوں دیں گےپیسے؟’دیکھو بیٹے، میرے پاس پیسے کی کمی نہیں. اور تمھیں آرام کی ضرورت ہے.’ میں نے شفقت سے مسکراتے ہوئے کہاپہلے تو وہ نہیں مانی مگر پھر میرے بیحد اصرار کرنے پر پیٹر کو فون کرنے کیلئے تیار ہوگئپیٹر کون تھا؟ کیسا دکھتا تھا؟ کہانی کی طوالت کے پیش نظر میں ان سب باتوں کو بیان کرنے کی ضرورت نہیں سمجھتا. قصّہ مختصر، عینی کے فون کرنے پر پیٹر میرے فلیٹ پر آیا، میرا اور فلیٹ کا جائزہ لیا، ایک خبیث مسکراہٹ سے مجھے نوازا اور نوٹوں کی گڈّی لیکر یہ جا وہ جااگلے دن میری آنکھ عینی کے جگانے پر کھلی‘اٹھیں سر، جلدی سے فریش ہو کر آ جایئں. میں نے ناشتہ تقریباً بنا ہی لیا ہے’نتاشہ کے چلے جانے کے بعد اس دن پہلی دفعہ مجھے ناشتے کا بہت مزہ آیا. ناشتہ کر کے فارغ ہوئے تو میں نے دیکھا کے، عینی نے ابھی تک وہ ہی اپنی جینز کی پتلون اور ایک سیاہ ٹی شرٹ پہنی ہوئی تھیعینی تم الماری سے نتاشہ کے کوئی کپڑے نکال کر پہن لو. بےتحاشہ کپڑے پڑے ہیں. تمھیں کوئی نا کوئی پورا ضرور آ جائے گاسچ میں سر؟ میں پہن لوں نتاشہ کے کپڑے؟ آپ کو برا تو نہیں لگے گا؟’ اس نے بچوں کی طرح خوش ہوتے ہوئے پوچھا‘ہاں ضرور پہن لو. مجھے بھلا کیوں برا لگے گا؟’عینی نتاشہ کے کپڑوں میں سے، ایک گرے رنگ کی جینز اور کھلی سی آسمانی رنگ کی ٹی شرٹ پہن کے آئ، تو کچھ لمحے کیلئے مجھے یوں لگا کے، نتاشہ پھر سے میرے سامنے آ گئ ہو. میری آنکھوں میں نمی دیکھ کر عینی تھوڑی پریشان ہوگئ ہ‘سوری سر’کوئی بات نہیں. مجھے میری بیٹی یاد آ گئ. بالکل تمھارے جتنی تھی جب وہ مجھ سے ناراض ہو کر چلی گئ.’ میں نے ہاتھ کی پشت سے آنسو پونچھتے ہوئے کہا.کیا ہوا تھا سر؟ وہ آپ سے ناراض کیوں ہوئی؟’ عینی نے کارپٹ پر بیٹھ کر اور گھٹنوں پر تھوڑی رکھ کر پوچھا’ نتاشہ میری اکلوتی بیٹی تھی اور بیوی کی وفات کے بعد میرا واحد اثاثہ.’ میں نے کھڑکی سے باہر سمندر کی مچلتی لہروں کو دیکھتے ہوئے کہا. ‘کم از کم، مجھے تو یہی لگتا تھا کے ہم دونوں کے بیچ، کسی تیسرے کی گنجائش نہیں تھی لیکن زندگی بڑی ظالم چیز ہے. اس نے میڈیکل کالج میں داخلہ لیا اور اپنے ساتھ پڑھنے والے وجدان کی محبت میں گرفتار ہوگئ. اس کیلئے تو وجدان، مشرق سے ابھرتا ہوا سورج تھا لیکن مجھے پہلی ہی ملاقات میں، لڑکے کی شخصیت اور کردار کا اچھی طرح اندازہ ہوگیا تھا. باقی کسر، معمولی سی پوچھ گچھ سے پوری ہوگئ. بہت شاطر لڑکا تھا. کئی لڑکیوں کو محبت کے جال میں الجھا کر برباد کر چکا تھا. نتاشہ میں اسکی دلچسپی، میری زمینوں کی وجہ سے تھی. وہ اچھی طرح جانتا تھا کے، میرے بعد، نتاشہ ہی میری جائداد کی وارث تھیمیں نے نتاشہ کو سمجھانے کی بہت کوشش کی. لیکن، وہ اپنی وقتی چاہت کو محبت سمجھ بیٹھی تھی. باپ کی کسی بات کا کوئی اثر نہیں ہوا. ایک دن وجدان کے والدین اسکا رشتہ لیکر آ گئے. میں نے بےعزتی کرنا تو مناسب نہیں سمجھا لیکن، صاف صاف انکار کر دیا. نتاشہ کو مجھ سے بیحد محبت تھی لیکن جوان تھی اور بہت جذباتی بھی. پہلے تو مجھے منانے کی کوشش کی مگر میرے صاف صاف انکار پر، اگلے ہی دن مجھے چھوڑ کر چلی گئ. اس نے ایک لمحے کو بھی، بوڑھے باپ کی محبت کا خیال نہیں کیا. لیکن خیر، اب میں سوچتا ہوں کے، کاش میں نے انکار نا کیا ہوتا تو، آج میری بیٹی میرے پاس ہوتی.آپ غم نا کریں سر. وہ ایک دن ضرور واپس آ جائے گی.’ ۔جاری ہے ۔ ۔جاری ہے ۔
عینی نے مجھے ایک پانی کا گلاس لا کر دیا’.کاش ایسا ہوسکتا……..!’ میں نے بےبسی سے ہاتھ ملتے ہوئے کہا’‘خیر اب تمھاری باری. تم بتاؤ تم کال گرل کیسے بنی؟ تمھارے والدین کہاں ہیں؟’میں لاہور کے رہنے والے ایک غریب رکشے والے کی بیٹی تھی سر.’ عینی نے کارپٹ پر اپنی جگہ سنبھالتے ہوئے اپنی کہانی کا آغاز کیامیرا باپ ٹھیکے پر رکشا چلاتا تھا اور میری ماں محلے والوں کے کپڑے سی دیتی تھی. کچھ نا کچھ گزر بسر ہو ہی جاتی تھی. پھر میرا باپ بری صحبت میں پڑ گیا اور نشے کا عادی ہوگیا. ماں کے سیے کپڑوں سے اتنی آمدنی نہیں ہوتی تھی کے گھر کا خرچہ چل سکے. غریبوں کا محلہ تھا. سینے والے کپڑے بھی بہت کم ہوتے تھے. ہم تین بہنیں تھیں لہذا، فاقوں پر فاقے ہونے لگے. کئ دفعہ تو میرا باپ نشہ ٹوٹنے پر میری ماں کو اتنا مارتا کے بیچاری، بستر پر پڑ جاتیپھر ایک دن میرے باپ نے نشے کے پیسے نا ہونے پر میری ماں کو ایک ہیروئن فروش کے ہاتھوں بیچ ڈالا. پتا نہیں اس دن میری کمزور ماں کے ہاتھوں میں اتنی طاقت کہاں سے آ گئ. اس نے رات کو پھل کاٹنے والی چھری، اس ہیروئن فروش کے سینے میں اتار دی اور ہم تین چھوٹی بہنوں کو لیکر، گھر سے نکل آئ. چلتے چلتے ہم نہر کے کنارے جا پہنچے. میری ماں نے، ہم تینوں کے ہاتھ پیر ایک ہی رسی سے باندھے اور اسی رسی کا ایک کنارہ، اپنی کمر سے باندھ لیا. میں عمر میں باقی دونوں بہنوں سے بڑی تھی. مجھے کچھ کچھ ماں کی نیّت کا اندازہ ہوگیا. میں نے رو رو کر ماں کی منت کی. اس کے پاؤں پکڑے لیکن اس کے ارادے میں بہت طاقت تھی. اس نے ہمیں نہر میں دھکّا دیا اور خود بھی کود پڑی. جب مجھے ہوش آیا تو صرف میں زندہ بچی تھی. ماں اور دونوں بہنیں ڈوب کر مرچکی تھیں‘ماں کے مرنے کے بعد میں دوبارہ باپ کے ہتھے چڑھ گئ اور جلد ہی اس نے میرا سودا طے کر دیا’آپ کو پتا ہے سر……؟’ اس نے ڈبڈبائ نظروں سے میری طرف دیکھا. ‘ایک نو سال کی بچی کی عزت کی کیا قیمت لگائ گئ؟صرف دو ہزار روپے. پھر میں لڑکی نہیں رہی. تجارت کا مال بن گئ. ایک گاہک سے دوسرا اور دوسرے سے تیسرا. بکتی رہی. پھر ایک دن میں پیٹر کے ہاتھ لگ گئ. اس کو اچھی طرح پتہ تھا کے میں چونکہ شکل و صورت کی اچھی تھی، میرا بہتر استمعال ہوسکتا تھا. اس نے میرے اوپر بہت پیسہ خرچ کیا. انگریزی بولنا سکھایا، بڑے لوگوں میں اٹھنا بیٹھنا سکھایا. میں نے بھی دل لگا کر سب کچھ سیکھا اور ایک ہائی کلاس کال گرل بن گئتھوڑی دیر کمرے میں بالکل خاموشی چھائی رہی.میرے ساتھ ایک ڈیل کریں گے سر؟’ عینی نے پوچھا تو میں نے چونک کر سر اٹھایا’‘ڈیل؟ کیسی ڈیل؟’محبت کی ڈیل. ہمارے پاس چار دن ہیں. ان چار دنوں میں آپ میرے لئے ایک محبت کرنے والے باپ کی کمی پوری کریں ۔جاری ہے ۔
اور میں آپ کی بیٹی کی کمی، پوری کرنے کی کوشش کروں گی‘گمشدہ رشتوں اور رشتوں کی محبت کی کمی، ایسے پوری نہیں ہوتی عینی……لیکن خیر، میں تیار ہوں’وہ چار دن میرے لئے واقعی یادگار بن گئے. اس نے واقعی مجھ سے بیٹیوں کی طرح محبت کی. میرا بالکل ایسے خیال رکھا کے جیسے صرف نتاشہ ہی رکھ سکتی تھی. میرے کپڑے نکال کر غور سے جائزہ لیا. پرانے کپڑے پھینک دئے. کچھ کے بٹن دوبارہ لگائے. میرے لئے کھانا باقائدگی سے پکاتی رہی. میری کتابوں پر گرد پوش چڑھائے. یہاں تک کے میرے پاؤں بھی دبائے. میں منع ہی کرتا رہ گیا لیکن اس نے میری ایک نہیں سنیمیں نے بھی پوری کوشش کی کے اسے بتا سکوں کے، ایک شفیق باپ کی محبت کیسی ہوسکتی تھی. میں نے اسے بہت سیر کروائی. پورا کراچی لیکر گھوما. جو کہا کھلایا، جو کہا پلایا. یہاں تک کے، اس کی خاطر میں، اس عمر میں، کلفٹن کے فن لینڈ میں جھولوں پر بھی بیٹھامجھے ابھی تک یاد ہے کے وہ چار دنوں میں سے آخری دن تھا. ہم ڈیفنس کے ایک نئے تعمیر شدہ شاپنگ پلازہ میں، پھر رہے تھ میں چاہتا ہوں کے تمھیں کچھ کپڑے اور جوتے لے دوں. میری مرضی کے نہیں، تمھاری مرضی کے.’ میں نے اس سے کہانہیں سر. مجھے کپڑے یا جوتے نہیں چائییں. آپ نے کچھ لیکر دینا ہے، تو ایک گڑیا لے دیں.’ اس نے تقریباً ضد کرتے ہوئے کہا‘گڑیا؟’ میں نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا. ‘گڑیا کا کیا کرو گی تم؟’جب میں چھوٹی سی تھی نا سر، تو مجھے سنہرے بالوں والی گڑیا لینے کا بہت شوق تھا.’ عینی کی آنکھوں میں ناآسودہ خواہشات کے چراغ جل پڑے. ‘لیکن میرے ماں باپ کے پاس، اتنے پیسے نہیں ہوتے تھے کے وہ میری ضد پوری کر سکیں. بس میری ماں کبھی کبھی، پرانے کپڑوں کی کترنوں سے ایک گڑیا سی دیتی تھی. وہ اصل گڑیا جیسی تو نہیں ہوتی تھی، لیکن کچھ دیر کو، میرا شوق دھیما ضرور پڑ جاتا تھا. بس آپ مجھے ایک گڑیا لے دیں.’ اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر بالکل بچوں کی طرح کہامیں انکار نہیں کر سکا. ہم نے بہت ڈھونڈ ڈھانڈ کر، ایک کھلونوں کی دوکان سے، خوبصورت نیلی آنکھوں اور سنہرے بالوں والی گڑیا خریدی. عینی نے گاڑی میں بیٹھتے ہی، بچوں کی طرح اس گڑیا کو سینے سے لگا لیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی. میں کچھ نہیں بولا. بس پیار سے اسکے گھنے بالوں سے ڈھکی گردن سہلاتا رہا. پھر مجھے بھی اپنی نتاشہ کی یاد آ گئ. اور نا چاہتے ہوئے بھی میری آنکھوں میں ڈھیروں آنسو امڈ آےسر….!’ عینی نے مجھے روتے دیکھا تو پوچھنے لگی. ‘نتاشہ کہاں ہے؟ مجھے اس کا پتا بتایئں. میں وعدہ کرتی ہوں، میں اسے منا کر ضرورآپ کے پاس واپس لے آؤں گی‘تم سمجھتی نہیں ہو عینی. نتاشہ کبھی واپس نہیں آ سکتی’.کیوں سر؟ کیوں واپس نہیں آ سکتی؟’ ۔جاری ہے ۔
اس نے بیقرار ہو کر پوچھا’میں نے اسکی بات کا کوئی جواب نہیں دیا اور گاڑی سٹارٹ کر کے، پلازے کی پارکنگ سے باہر نکالی. وہ چپ چاپ مجھے گاڑی ڈرائیو کرتے دیکھتی رہیمیرے ساتھ آؤ.’ میں نے ڈیفنس کے قبرستان کے باہر گاڑی روکی اور عینی کا ہاتھ پکڑ کر، اندر داخل ہوگیا. وہ بیچاری خاموشی سے میرے ساتھ ساتھ چلتی رہیچلتے چلتے ہم کالے ماربل سے ڈھکی، مگر کتبوں کے بغیر دو سادہ سی قبروں تک پہنچ گئے.یہ کن کی قبریں ہیں سر؟’ عینی نے پریشان ہوکر پوچھا’‘یہ میری بیوی اور نتاشہ کی قبریں ہیں’‘کیا کہ رہے ہیں آپ؟’ عینی نے بے چینی سے پوچھا. ‘نتاشہ مر گئ؟ مگر کیسے؟’میں نے تمھیں بتایا تھا نا کے، میرے وجدان کے گھر والوں کو انکار کرنے پر، نتاشہ مجھ سے ناراض ہوگئ تھی.’ میں نے قبر کے پاس زمین پر بیٹھتے ہوئے کہا. ‘بس جب اگلے دن میں یونیورسٹی سے واپس آیا تو ٹی وی لاونج میں، نتاشہ پنکھے سے لٹکی جھول رہی تھی.سر……..!’ عینی اس سے آگے کچھ نہیں بول سکی اور وہیں زمین پر میرے ساتھ بیٹھ گئ’میرے جسم میں جیسے صدیوں کی تھکن اتر آئ تھی. ہم دونوں بہت دیر وہیں، ان دو اکیلی قبروں کے پاس لٹے پٹے مسافروں کی طرح، بیٹھے روتے رہےجب ہم گھر واپس آ ئے تو بہت رات ہو چکی تھی. لیکن ہم دونوں کا سونے کا دل نہیں تھا. میں نے وہیں ٹی وی لاؤنج میں، آرام کرسی پر بیٹھ کر پائپ سلگا لیا اور عینی وہیں، میرے قدموں میں بیٹھ گئ.عینی……ایک بات کہوں، مانو گی؟’ میں نے اپنے زانو پر دھرا اسکا سر پیار سے سہلاتے ہوئے کہا’‘جی سر…..ضرور مانوں گی’عینی، تم یہیں میرے پاس رک جاؤ. میری نتاشہ بن جاؤ. میں وعدہ کرتا ہوں تمھیں کوئی تکلیف نہیں ہونے دوں گا.’ میں نے گلوگیر لہجے میں اس سے درخواست کی‘نہیں سر. ایسے نا کہیں پلیز. میں نتاشہ بننے کے قابل نہیں ہوں’میں نے بار بار اپنی درخواست دہرائ. اس نے بار بار انکار کیا. پھر ہم دونوں خاموش ہوگئے. پتہ نہیں وہیں بیٹھے بیٹھے، کب نیند نے آن گھیراصبح میری آنکھ کھلی تو گھر میں سناٹا چھایا ہوا تھا. میں نے ڈرتے دل کے ساتھ اٹھ کر، نتاشہ کے کمرے میں جھانکا. بسترپر کوئی سلوٹ نہیں تھی. بس سرہانے پر عینی کی گڑیا پڑی ہوئی تھی اور پائنتی کی طرف، نتاشہ کے وہ تمام کپڑے سلیقے سے تہ کئے پڑے تھے، جو عینی کے زیر استمعال رہے تھے پھر ایک دن مجھے ایک پارسل ملا. میں نے کھولا تو اس میں ایک لاکھ روپئے تھے اور ساتھ ایک پرچی تھی جس پر لکھا تھا‘ ۔جاری ہے ۔
ایک محبت کرنے والی بیٹی کیطرف سے ایک شفیق باپ کیلئے. بہت شکریہ کے ساتھ’میں نے عینی کو بہت ڈھونڈا. لیکن جو ملنا نا چاہ رہے ہوں وہ ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے. لیکن عینی کی کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی تھی. ایک دن میں نے صبح اخبار کھولا تو، آخری صفحے پر عینی کی تصویر تھی. اسکی تشدد زدہ لاش، ڈیفنس کے ایک چوراہے کے پاس سے ملی تھی. پولیس نے معمول کی کاروائی مکمّل کر کے، لاش ایدھی والوں کے سپرد کر دی تھیمیں نے بوجھل دل کے ساتھ عینی کی لاش ایدھی والوں سے وصول کی. اس کے چہرے پر ویسی ہی معصومیت روشن تھیقبر میں مٹی ڈالنے سے پہلے، میں نے بغل میں دبائی سنہرے بالوں اور نیلی آنکھوں والی گڑیا نکالی اور نیچے اتر کر، عینی کے پہلو میں احتیاط کے ساتھ رکھ دیخدا حافظ عینی!’ میں نے اس کے پھول سے وجود کو، بھاری دل کے ساتھ الوداع کہا اور کفن کے اوپر سے ہی، اس کی معصوم پیشانی چوم لی