لاہور (ویب ڈیسک) انڈیا کی پہلی ’سیویئر سبلنگ‘ کی کہانی بین الاقوامی میڈیا کی شہ سرخیوں میں ہے۔ مگر اس کہانی نے ایک ایسے ملک میں جہاں قوانین پہلے ہی کمزور ہیں، ایک ایسے بچے کی پیدائش میں، جسے اپنے بہن یا بھائی کے علاج یا زندگی بچانے کے لیے دنیا میں لایا گیا ہو، نامور خاتون صحافی گیتا پانڈے بی بی سی کے لیے اپنے ایک آرٹیکل میں لکھتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ ٹیکنالوجی کے استعمال سے متعلق خدشات کو بھی جنم دیا ہے۔کاویا سولنکی اکتوبر سنہ 2018 میں پیدا ہوئی تھیں اور مارچ سنہ 2020 میں جب وہ صرف 18 ماہ کی تھیں، ان کی ہڈیوں کا گودا یا ’بون میرو‘
نکال کر ان کے سات برس کے بھائی ابھیجیت میں پیوند یا ٹرانسپلانٹ کر دیا گیا تھا۔ابھیجیت تھیلیسیمیا کے مرض میں مبتلا تھے۔ ان میں ہیموگلوبن کی تعداد خطرناک حد تک کم تھی اور زندہ رہنے کے لیے انھیں بار بار خون کی منتقلی کی ضرورت پڑتی تھی۔ہر تین ہفتے میں انھیں 350 سے 400 ملی لیٹر خون کی ضرورت پڑتی تھی۔ انڈیا کی مغربی ریاست گجرات کے سب سے بڑے شہر احمد آباد سے فون پر بات کرتے ہوئے ان کے والد سہدیوسن سولنکی نے مجھے بتایا کہ ’چھ برس کی عمر تک ابھیجیت کے جسم میں 80 بار خون کی منتقلی ہو چکی تھی۔‘’ابھیجیت میری پہلی بیٹی کے بعد پیدا ہوئے۔ ہم سب بہت خوش تھے۔ وہ دس ماہ کے تھے جب ہمیں پتا چلا کہ انھیں تھیلیسیمیا ہے۔ ہم مکمل طور پر تباہ ہو گئے۔ وہ کمزور تھے، ان کا مدافعتی نظام بھی کمزور تھا اور وہ اکثر بیمار رہتے تھے۔‘وہ کہتے ہیں ’اور جب مجھے پتا چلا کہ اس بیماری کا کوئی علاج نہیں تو میرا دکھ دگنا ہو گیا۔‘بہتر طور پر سمجھنے کے لیے کہ ان کے بیٹے کے ساتھ کیا مسئلہ ہے، انھوں نے اس بیماری اور اس کے ممکنہ علاج کے بارے میں پڑھنا شروع کیا اور طبی ماہرین سے مشورے لینا شروع کر دیے۔
جب انھوں نے سُنا کہ بون میرو ٹرانسپلانٹ سے اس مرض کا مستقل علاج ہو سکتا ہے تو انھوں نے اس کی تلاش شروع کر دی لیکن ابھیجیت کی بڑی بہن سمیت خاندان کے کسی فرد کا بون میرو ابھیجیت کے بون میرو سے میچ نہ ہو سکا۔سنہ 2017 میں انھیں ’سیویئر سبلنگز‘ (یعنی ٹیکنالوجی کی مدد سے مخصوص جینیات والا ایک ایسا بچہ پیدا کرنا جو اپنے بھائی یا بہن کے لیے اعضا، خلیے یا بون میرو عطیہ کر سکے) سے متعلق ایک تحریر پڑھنے کا موقع ملا۔ان کا تجسس بڑھا اور انھوں نے انڈیا میں تولیدی امراض کے ماہر ڈاکٹر منیش بینکر سے رابطہ کیا اور انھیں ابھیجیت کے علاج کے لیے تھیلیسیمیا سے پاک جنین تیار کرنے کے لیے رضامند کیا۔مسٹر سولنکی کہتے ہیں کہ انھوں نے سیویئر سبلنگ کا انتخاب اس لیے کیا کیونکہ ان کے پاس اور کوئی راستہ نہیں تھا۔ ایک ہسپتال نے انھیں بتایا کہ انھیں امریکہ میں بون میرو ٹشو کا میچ مل گیا ہے لیکن اس پر لاکھوں روپے لاگت آ رہی ہے اور چونکہ یہ ڈونر غیر تھا اس لیے انھیں بتایا گیا کہ کامیابی کی شرح صرف 20 سے 30 فیصد ہو سکتی ہے۔کاویا کی پیدائش کے لیے جس ٹیکنالوجی کو استعمال کیا گیا اسے ’پری امپلانٹیشن جینیٹک‘ کہا جاتا ہے، جو بیماری کا سبب بننے والی جین کو ایمبریو سے خارج کر دیتا ہے۔ اس ٹیکنالوجی کا استعمال انڈیا میں چند برس سے جاری ہے لیکن ایسا پہلی بار ہوا کہ اسے سیویئر سبلنگ کی پیدائش کے لیے استعمال کیا گیا ہو۔
ڈاکٹر بینکر کہتے ہیں کہ یہ ایمبریو تیار کرنے، اس کی جانچ اور اسے ابھیجیت سے میچ کرنے میں چھ ماہ سے بھی زیادہ عرصہ لگا۔ جب یہ بہترین انداز میں میچ کر گیا تو اس جین کو ماں کی بچہ دانی میں داخل کیا گیا۔انھوں نے بتایا کہ ’کاویا کی پیدائش کے بعد ہمیں مزید 16 سے 18 ماہ انتظار کرنا پڑا تاکہ کاویا کا وزن 12، 10 کلو تک ہو جائے۔ بون میرو ٹرانسپلانٹ مارچ میں کیا گیا۔ لیکن اس بارے میں اعلان کرنے سے پہلے ہمیں پھر کچھ ماہ مزید انتظار کرنا پڑا تاکہ دیکھا جا سکے کہ وصول کنندہ نے اس ٹرانسپلانٹ کو قبول کیا ہے یا نہیں۔مسٹر سولنکی نے مجھے بتایا کہ ’ٹرانسپلانٹ ہوئے سات ماہ گزر چکے ہیں اور ابھیجیت کو خون منتقلی کی ضرورت نہیں پڑی۔ ہم نے اس کے خون کے نمونوں کی حال ہی میں جانچ کی ہے اور اس کے ہیموگلوبین کی تعداد اب 11 سے زیادہ ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ وہ شفایاب ہو چکے ہیں۔‘ٹرانسپلانٹ کرنے والی ڈاکٹر دیپا تریودی نے بی بی سی گجراتی کے ارجن پارمر کو بتایا کہ اس عمل کے بعد کاویا میں ہیموگلوبین کی سطح کم ہوئی اور جس جگہ سے بون میرو لیا گیا وہاں کچھ دن درد بھی رہا لیکن اب وہ مکمل طور پر صحت یاب ہو چکی ہیں۔انھوں نے کہا: ’کاویا اور ابھیجیت اب مکمل طور پر صحتیاب ہو چکے ہیں۔‘مسٹر سولنکی کہتے ہیں کہ کاویا کی آمد نے ان کی زندگی بدل دی ہے۔’ہم اسے اپنے دوسرے بچوں سے زیادہ پیار کرتے ہیں۔
وہ صرف ہماری اولاد نہیں بلکہ ہمارے خاندان کو بچانے والی بھی ہیں۔ ہم ہمیشہ اس کے شکر گزار رہیں گے۔‘امریکہ میں 20 سال پہلے پیدا ہونے والے ایڈم نیش کو دنیا کا پہلا ’سبلنگ سیویئر‘ سمجھا جاتا ہے۔ ان کی پیدائش کا مقصد ان کی چھ برس کی بہن کی زندگی کو بچانا تھا جو فینکونی نامی ایک کمیاب اور ہلاکت خیر قسم کی خون کی کمی کا شکار تھی۔اس وقت کئی لوگوں نے یہ سوال اٹھایا کہ آیا اس بچے کی پیدائش واقعتاً مطلوب تھی یا اسے اس کی بہن کی زندگی بچانے کی خاطر محض ’طبی ضرورت‘ کے تحت پیدا کیا گیا ہے۔ بہت سے تو یہ سوچنے لگے کے کہیں اس ٹیکنالوجی کو یوجینِکس یعنی من پسند بچوں کی پیدائش کے لیے بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔ سنہ 2010 میں جب برطانیہ نے پہلے سیویئر سبلنگ کی پیدائش کا اعلان کیا تو یہ بحث پھر سے ہونے لگی۔کاویا کی پیدائش نے اب یہ بحث انڈیا میں چھیڑ دی ہے کہ کیا بچوں کو اب ’جنس‘ یعنی اشیائے ضرورت کے طور پر پیدا کیا جائے گا اور کیا ’کامل اولاد‘ کی خریداری اخلاقی معیار پر پورا اترے گی۔امریکہ میں یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سے وابستہ پروفیسر جان ایونز کا کہنا ہے کہ یہاں ایک اہم اخلاقی مسئلہ موجود ہے، جیسا کہ جرمن فلسفی ایمینول کانت نے کہا تھا کہ آپ کسی شخص کو خالصتاً اپنے ذاتی مفاد کے لیے استعمال نہیں کر سکتے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’سیویئر سبلنگ کے معاملے میں کئی سوال جنم لیتے ہیں۔ اور مسائل تفصیل میں پوشیدہ ہیں۔ ہمیں والدین کی نیت کو دیکھنا ہو گا۔ کیا وہ اس لیے
ایک مکمل صحت مند بچے کے خواہاں ہیں کہ اس سے اپنے بیمار بچے کا علاج کر سکیں۔ اگر آپ کا مقصد یہ ہی تو آپ ایک بچے کی مرضی کے بغیر اس کی زندگی کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔‘ان کے بقول اگلا سوال یہ ہے کہ سیویئر سبلنگ سے کس طرح فائدہ اٹھایا جائے گا۔ ایک رخ تو یہ ہو سکتا ہے کہ بچے کے آنول سے خلیے لے کر کام میں لایا جائیں، جبکہ دوسرا رخ یہ کہ ایسے بچے کے اعضا نکال کر مریض بچے کو لگا دیے جائیں۔ہڈیوں کے گودے کا معاملہ کہیں ان دو انتہاؤں کے بیچ آتا ہے۔ یہ بھی بالکل بے ضرر عمل نہیں مگر اعضا نکالے جانے کی طرح مستقل نقصان کا احتمال بھی نہیں رکھتا۔پروفیسر ایونز کہتے ہیں کہ ’یہ ایک ایسی ڈھلوان ہے جس پر بہت پھسلن ہے اور بریک لگانا بہت مشکل ہے۔ بون میرو کی پیوندکاری کے لیے سیویئر سبلنگ پیدا کرنا اور بات ہے۔ مگر آپ اس کام کو آگے بڑھنے سے کیسے روکیں گے؟ آپ موجود انسانوں کے اندر جینیاتی تبدیلیاں کرنے سے خود کو کیسے روکیں گے؟‘صحافی نمیتا بھنڈارے کا کہنا ہے کہ برطانیہ میں سخت قواعد و ضوابط ہیں جو جینیٹک بائیوٹیکنالوجی کے غلط استعمال کو روکتے ہیں، مگر انڈیا میں ضابطے اس قدر مضبوط نہیں ہیں۔وہ کہتی ہیں کہ ’میں سولنکی فیملی کو بُرا نہیں کہتی۔ ایسی صورتحال میں میں بھی شاید یہ ہی فیصلہ کرتی۔ مگر ہمیں قواعد و ضوابط کا ایک نظام چاہیے۔ اس پر عوامی بحث ہونی چاہیے جس میں طبی شعبے کے ساتھ بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے بھی
حصہ لیں۔ یہ بچہ بغیر کسی مباحثے کے پیدا کیا گیا ہے۔ اتنا اہم کام نظروں سے کیسے اوجھل رہا؟‘مسٹر سولنکی گجرات میں سرکاری ملازم ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’دوسروں کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ ہمارے خاندان کے بارے میں فیصلہ صادر کریں۔ اس صورتحال کا سامنا ہمیں ہے۔ آپ لوگوں کی نیت دیکھیں۔ میرے بارے میں کچھ کہنے سے پہلے آپ خود کو اس صورتحال میں ڈال کر سوچیں۔‘’سب والدین صحتمند بچے چاہتے ہیں اور ان کی صحت کو بہتر بنانے میں کوئی اخلاقی مسئلہ نہیں ہے۔ لوگ مختلف وجوہ کی بنا پر بچے پیدا کرتے ہیں، جیسے خاندانی کاروبار چلانے کے لیے، خاندان کا نام زندہ رکھنے کے لیے، اکلوتے بچے کو ایک ساتھی دینے کے لیے۔ پھر میری نیت کو کیوں پرکھا جا رہا ہے؟‘ڈاکٹر بینکر کا کہنا ہے کہ اگر ہم امراض سے پاک بچے پیدا کر سکتے ہیں تو اس میں حرج ہی کیا ہے۔ ’بنیادی سوال انڈیا میں قواعد و ضوابط پر نظرثانی کا ہے۔ مگر ہم کسی کو اس ٹیکنالوجی کے ثمرات سے محض اس لیے محروم نہیں رکھ سکتے کہ کوئی دوسرا اس کا غلط استعمال کرے گا۔‘بچوں میں ممکنہ ڈاؤنز سِنڈروم کی موجودگی کا پتا چلانے کے لیے ایسے بچوں سکرینگ 1970 کی دہائی سے کی جا رہی ہے اور ڈاکٹر بینکر کہتے ہیں کہ نقائص والی جینز کو نکالنا بھی ویسا ہے، اور مقصد یہ ہے کہ آئندہ نسل کو ایسے عوارض سے پاک کر دیا جائے۔ان کا کہنا ہے کہ سولنکی خاندان کے لیے جو کچھ کیا گیا ہے اس میں خطرہ بہت تھوڑا اور وقتی تھا۔ ان کے خیال میں اس کا نتیجہ چنے ہوئے راستے کا جواز ہے۔’علاج سے پہلے ابھیجیت کی متوقع زندگی 25 سے 30 برس تک تھی، اب وہ بالکل صحتیاب ہیں اس لیے ان کی زندگی عام لوگوں کی زندگی جیسی ہو گی۔‘(بشکریہ : بی بی سی )