Wednesday January 22, 2025

ڈرامہ میرےپاس تم ہو کی اگلی قسط کمزور دل افراد دوائیاں پاس رکھ کردیکھیں

اسلام آباد(ویب ڈیسک)ڈرامہ سیریل ’’میرے پاس تم ہو ‘‘ کی مقبولیت کے نئے ریکارڈز سے لگتا ہے کہ یہ پاکستانی ڈراما کی تاریخ کا ناقابل فراموش باب ہوگا۔اختتام کی جانب بڑھتے اس مقبول ترین سیریل کے مصنف خلیل الرحمان قمر نے حالیہ انٹرویو میں کچھ ایسی باتیں بتائیں جو اس ڈرامے کو پسند کرنے والے پہلے نہیں جانتے ہوں گے۔انٹرٹینمنٹ ڈاٹ پی کے کو دیے جانے والے ایک انٹرویو میں خلیل الرحمان قمر نے ڈرامے کی باقی رہ جانے والی آخری 2 قسطیں دیکھنے والوں کیلئے خاص ہدایت کے علاوہ یہ کہا کہ ڈرامہ ختم ہونے جا رہا ہے لیکن یہ دلوں میں رہ جائے گا کیونکہ یہ میرے دل میں رہتا ہے، میں نے ایسے مرد

دیکھے ہیں جو اس تڑپ کے ساتھ زخمی حالت میں بسمل کی طرح پھڑپھڑاتے ہیں۔ زندگی میں کبھی کیس مرد پر ترس نہیں کھایا لیکن عورت کے ہاتھوں برباد ہونے والے مردوں پر ترس آتا ہے۔ڈرامے کی آخری 2 قسطوں میں کیا ہوگا؟ اس سوال کے جواب میں خلیل الرحمان قمرنے کہا کہ یہ نہیں بتاؤں گا کہ آگے کیا ہوگا لین یہ کہوں گا کہ خدا معاف کردیتا ہے لیکن محبت اپنے گنہگاروں کو معاف نہیں کرتی تو آپ دیکھیں کہ وہ کیا کرتی ہے۔ اگلی قسط 60 یا 65 منٹ کی ہے۔ اور درخواست کروں گا کہ کمزور دل افراد اپنی دوائیاں پاس لیکر بیٹھیں کیونکہ آپ اسے دیکھے بغیر رہ نہیں سکتے اور میں یہ مذاق نہیں کررہا کیونکہ میں ڈرامہ دیکھوں تو میں خود بھی اسی تکلیف سے گزر جاتا ہوں ۔انہوں نے واضح کیا کہ یہ وارننگ صرف مرد حضرات کیلئے ہے کیونکہ عورتوں کےدل کمزور نہیں ہوتے، میں قدغن نہیں لگا رہا لیکن دل کے اسپتال جا کر دیکھ لیں 4 عورتیں ہوں گی تو 400 مرد زیرعلاج ہیں۔یہ ڈرامہ لکھنے کا قصہ سناتے ہوئے مصنف نے بتایا کہ سال 2001 میں ایک ٹیلی فلم ’’ بیوپار‘‘ لکھی تھی جس میں بابرعلی اور ماریہ واسطی نے مرکزی کردار ادا کیے۔ یہ ٹیلی فلم سپر ہٹ ہوئی تھی لیکن میری تشنگی نہیں ختم ہوئی، مجھے لگا کہ میں ُاس کرب اور تکلیف کو بیان نہیں کرپایا اس لیے سیریل لکھنے کا سوچا۔منفرد اندازمیں کہانی لکھنےکا ہنر جاننے کے حوالے سے مشہور خلیل الرحمان قمر نے بتایا کہ یہ قصد کرتے ہی اتنے مکالمے اترنا شروع ہوئے کہ ان کو سنبھالتا ہی رہ گیا۔ پروردگار نے میرے قلم سے وہ چیز بھیجی جو بہت سی عورتوں کو سنبھلنے کا موقع دے گی اور مردوں کو یہ سوچنے کا موقع دے گی کہ ایسی عورتوں کو تھپٹڑ مارنے کی ضرورت نہیں ہے

کیونکہ وہ بدقمست تو خود اپنے منہ پر تھپڑ مار چکی ہیں، انہیں بس دعا دے کر رخصت کیجئے اور کہیے آپ ہمارے نہیں جناب تو ہم بھی آپ کے نہیں۔مصنف نے ڈرامے کے ڈائریکٹرندیم بیگ کی صلاحیتوں کو بےپناہ سراہتے ہوئے کہا کہ میں اور ندیم پیارے افضل اور منزلیں کو اپنے بڑے سیریل مانا کرتے تھے لیکن وہ یہاں کچھ ایسا کرگیا ہے جو خلیل الرحمان قمر نے لکھا تھا۔ اس نے101 فیصد کر دکھایا ہے کہ ڈرامہ دیکھنے والا وہی تڑپ اور تکلیف محسوس کرتا ہے جو لکھنے والے نے محسوس کی تھی۔خلیل الرحمان قمر نے تمام اداکاروں کے کام کو سراہتے ہوئے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ موتی پرو دیے گئے ہوں۔ میں نے جب

یہ ڈرامہ لکھا تو ندیم بیگ اور ہمایوں سعید سے کہتا تھا کہ یہ ڈرامہ نہیں ، مجھے لگتا ہے ناول لکھ دیا ہے جسے تمام لڑکیوں کوگاہے بگاہے پڑھتے رہنا چاہیے۔خلیل الرحمان نے ڈرامے میں رومی کا کردار ادا کرنے والے بچے شیث کے حوالے سے کہا کہ میں بہت فکرمند تھا کیونکہ اس بچے کے بغیر تو یہ ڈرامہ ہی نہیں تھا، پریشان تھا کہ بچہ کیسا ہوگا ، ایسا نہ ہو کہ پرفارمر ہو تو اس کے اندر بچہ نظر نہ آئے لیکن رومی نے بچوں کی طرح وہ بول دیا جو بڑے بولتے ہیں۔ رومی میرے بڑے عزیز دوست ہیں جو سیشن جج ہیں، یہ نام ان کی محبت میں لکھا اور رومی درحقیقت میرا بچپن ہے جو ایسی ہی بڑی بڑی باتیں کرتا تھا

اور لوگ مڑ کر دیکھتے تھے کے یہ بچہ بچوں والی باتیں کیوں نہیں کررہا۔مہوش کا کردار ادا کرنے والی عائزہ خان کو بیوفا عورت کا کردا ادا کرنے پر تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا، اس حوالے سے خلیل الرحمان قمر نے کہا کہ عائزہ میرا چوتھا سیریل کررہی ہے، عائزہ کو خود بھی اپنے اوپر یقین نہیں تھا جتنا مجھے، ندیم اور ہمایوں کو تھا کہ وہ یہ کردار بہت اچھا کرے گی۔ڈرامے کی 21 اقساط نشر ہوچکی ہیں اور 2 باقی ہیں۔ اس کی کہانی دراصل مادہ پرست عورت اورمرد کی بیوفائی پر مبنی ہے۔ مہوش (عائزہ خان ) شوہردانش (ہمایوں سعید ) اور بیٹے کو چھوڑکردولت کی لالچ میں شہوار(عدنان صدیقی ) کے پاس چلی جاتی ہے۔خلیل

الرحمان کا تحریر کردہ یہ ڈرامہ مقبولیت کی انتہاؤں کو چھو رہا ہے۔ ہفتے کی شب ڈرامے کی نئی قسط نشر ہوتے ہی سوشل میڈیا پروائرل ہوجاتی ہے اور صارفین اگلی قسط نشر ہونے تک دلچسپ میمزبناتے اور تبصرے کرتے ہیں۔خلیل الرحمان قمر نے ایک انٹرویومیں کہا تھا کہ یہ ڈرامہ لکھتے ہوئے میرے ہاتھ کانپے، آخری سین لکھتے ہوئے آنسو بہہ رہے تھے۔ یہ بہت سارے مردوں کی سچی کہانی ہے جن کا میں نے مشاہدہ کیا۔

FOLLOW US