لاہور (ویب ڈیسک) انڈونیشیا نے کچھ عرصہ قبل اعلان کیا تھا کہ وہ اپنا دارالحکومت جکارتہ سے کہیں اور منتقل کر رہا ہے۔ اور اس منتقلی کی وجوہات میں ایک تو ٹریفک اور دوسری اہم بات یہ کہ یہ شہر پانی میں تیزی سے ڈوبنے والے شہروں میں سے ایک سمجھا جا رہا ہے۔نئے دارالحکومت کے لیے نئی بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق ۔
جگہ کے تعین کے لیے تاحال بحث جاری ہے، انڈونیشیا کے صدر جوکو وِڈوڈو اپریل کے انتخاب میں اپنی فتح کا اعلان کر چکے ہیں اور یہ اس بات کا اشارہ دیتا ہے کہ غالباً ملک کا نیا دارالحکومت اس کا ایک جزیرہ ’کالیمنتن‘ قرار پائے گا۔ایک دارالحکومت کو بالکل نئے سرے سے تعمیر کرنے کے لیے انڈونیشیا پہلے سے قائم چند ایک مثالوں کی پیروی کرے گا۔ینگون سے دارالحکومت منتقل کرنے کی سرکاری وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اس شہر میں ٹریفک اور آبادی بہت زیادہ بڑھ گئی ہے، لیکن اس کے علاوہ بھی کچھ عوامل ہو سکتے ہیں۔نے پی اِڈا کا محلِّ وقوع ملک کے مرکز میں ہے اور اس طرح وہاں سے مرکزی حکومت کا رابطہ ملک کے طول و عرض سے ایک جیسا ہو گا اور ان دور دراز علاقوں میں رسائی بھی بہتر اور تیزی سے ہو سکے گی جہاں اس وقت شورشوں کا سلسلہ جاری ہے۔لیکن میانمار کے کئی لوگوں کا خیال ہے کہ دارالحکومت کی منتقلی کی اصل وجہ فوج ہے جو 1962 سے اس ملک کے اقتدار پر قابض ہے، جو سمجھتی ہے کہ وہ نئے دارالحکومت میں عوامی احتجاج اور کسی بیرونی جارحیت سے زیادہ محفوظ رہے گی کیونکہ یہ جگہ سنگلاخ پہاڑیوں سے گھری ہوئی ہے۔منصوبہ بندی کی بدولت بننے والا یہ شہر ملیشیا کا انتظامی دارالحکومت ہے، لیکن کوالا لمپور اب بھی سرکاری اور شاہی دارالحکومت ہے۔قازق لفظ آستانہ، دارالحکومت کا معنی ہے اور یہ 1997 میں قازقستان کے صدر نور سلطان نذر بائیوو
کے حکم پر تعمیر کیا گیا تھا۔یہ جلد ہی وسطی ایشیا کا جدید ترین شہر بن گیا جہاں بے انتہا جدید طرز کی حکومتیں تعمیر ہوئیں۔نذربائیوو کی اقتدار سے قبل از وقت سُبکدوشی کی وجہ سے اُن کے جانشینوں نے آستانہ کا نیا نام نور سلطان رکھ دیا۔نائیجیریا کا دارالحکومت لاگوس سے سنہ 1991 میں ابوجہ منتقل کیا گیا۔ اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ نئے دارالحکومت کو تین نسلی گروہوں (یورُوبہ، اِگبو اور ہوؤسہ فولانی) کے اثرات سے نجات دلائی جائے۔لیکن اس منتقلی کی وجوہات میں لاگوس شہر کے بڑھتے ہوئے مسائل تھے جس کی آبادی سنہ 1970 میں چودہ لاکھ سے بڑہ کر پچھلے برس دو کروڑ ہو گئی تھی۔پاکستان کا نیا دارالحکومت بھی سٹریٹجک وجوہات کی وجہ سے بنایا گیا تھا جن میں ایک ملک کے انتظامی انضمام و وسائل کو زیادہ مضبوط کرنا تھا۔سنہ 1947 میں پاکستان بننے کے بعد ملک کا پہلا دارالحکومت کراچی تھا۔ لیکن ارد گرد کے ریگزاروں اور پانی کی قلت کی وجہ سے اس شہر کا مستبقل تاریک سمجھا گیا تھا۔ریو ڈی جینیریو برازیل کا 17ویں صدی سے دارالحکومت چلا آرہا تھا۔لیکن سنہ 1960 میں ملک مرکز کے مغرب کی جانب برازیلیہ کی اونچی جگہ کو نئے سرے سے تعمیر کر کے اُسے برازیل کا دارالحکومت بنا دیا گیا۔لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ دارالحکومت کی تبدیلی عملاً تو سنہ 1960 میں ہوئی لیکن اس تبدیلی کا فیصلہ سنہ 1891 میں لیا جا چکا تھا کیونکہ برازیل کے حکمران ملک کو انتظامی طور پر بہتر طور پر منضبط کرنا چاہتے تھے اور دارالحکومت کو
محفوظ جگہ پر منتقل کرنا چاہتے تھے۔ ریو ڈی جینیریو کی بیرونی حملے کی صورت میں حفاظت مشکل سمجھی جاتی تھی۔ کوزون شہر فلپائین کا دارالحکومت بنا اور پھر اس سے یہ اعزاز واپس پرانے دارالحکومت منیلا کو دے دیا گیا۔کوزون شہر کو فلپائین کے اُس وقت کے صدر مینیول کوزون نے سنہ چالیس کی دہائی میں آباد کیا تھا اور پھر اسے ملک کا دارالحکومت بناد دیا۔تاہم اس وقت بھی حکومت کے کئی دفاتر اور اہم انتظامی کام منیلا ہی میں رہے۔ سنہ 1976 میں منیلا کو دوبارہ ملک کا دارالحکومت بنا دیا گیا۔آسٹریلیا کا دارالحکومت کینبرا ملک کے دو طاقتور متحارب گروہوں کے درمیان ایک تصفیے کے طور پر تعمیر کیا گیا تھا۔ ایک طاقتور گروہ سڈنی کا تھا جبکہ دوسرا میلبورن کا۔اگرچہ نیا دارالحکومت بنانے کا فیصلہ سنہ 1908 میں لے لیا گیا تھا تاہم پارلیمینٹ سنہ 1927 میں کینبرا منتقل ہوئی۔عرصے تک برطانیہ کے زیرِ تسلط ہندوستان کا دارالحکومت کلکتہ رہا۔ لیکن سنہ 1911 میں دارالحکومت دلی منتقل کیا گیا اور اس کی وجہ کلکتہ کے ارد گرد کے علاقوں میں برطانوی راج کے خلاف مقامی لوگوں کی بڑھتی ہوئی مخالفت تھی۔انڈیا کا نیا دارالحکومت پرانی دلی کے مضافاتی علاقے میں تعمیر کیا گیا تھا۔ دلی سنہ 1648 سے لے کر 1857 تک مغل سلطنت کا دارالحکومت رہا۔ اس سے قبل دلی 1206 سے خاندانِ غلامان اور بعد کی مسلم بادشاہتوں کا دارالحکومت رہا۔ البتہ درمیان میں سلطان محمد تغلق کے زمانے میں کچھ عرصے کے لیے داراحکومت دولت آباد منتقل ہوا تھا لیکن چند برس بعد ہی واپس دلی منتقل ہوگیا۔(ش س م) (بشکریہ : بی بی سی )