لاہور (ویب ڈیسک) شہر میں گوالوںکی دکانوں پر آجکل ’’ دودھ60 روپے لٹر، دوکیساتھ ایک لٹر فری۔‘‘ کی فلیکس لگی ہیں ۔ دیہات میں بھی ساٹھ روپے سے کم میں دستیاب نہیں ۔ ’’دو کلو کے ساتھ ایک کلو فری‘‘ لوٹ سیل! میں بڑی دلکشی ہے، ساتھ خالص ہونے کا د عویٰ بھی ۔ نامور کالم نگار فضل حسین اعوان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ تھوڑی سی تحقیق سے چودہ طبق روشن ہو گئے۔ ارض و سما کے طبق ہی چودہ ہیں لہٰذا اتنے ہی روشن ہو سکتے ہیں۔ تین لٹر دودھ 120 روپے میں یعنی فی لٹر 40 روپے۔ ایک لٹر پر گوالا’’سائنسدانوں‘‘ کا کتنا خرچہ آتا ہے۔ دس روپے۔ جی ہاں! زیادہ سے زیاد ہ 10 روپے۔ گوالا حضرات کبھی دودھ میں پانی ملاتے تھے۔
اب نہ بھینسوں کا تردد نہ گھر گھر جا کر دودھ اکٹھا کرنے کی فکر، نہ ہی ٹرانسپورٹ کا جھنجھٹ ، گھر بیٹھے دودھ سازی۔ یہ ایسی دریافت ہے جسے لیبارٹری میں جعلی ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ جھاگ آتی اور ملائی بھی پھوٹتی ہے۔ ہم نے ایٹم بم ذرا عجلت میں بنا لیا جس پر پاکستان کو عالمی پابندیوں اور بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ ذمہ داری گوالوں کو دیتے تو بڑی آسانی سے قوم کو یہ نامرادمخلوق، منزل مراد سے بامراد کر دیتی۔ موت فروش یہ دانشور ایسا دودھ لے آئے جو خالص کو بھی دیکھنے اور چھونے میں مات کر دیتا ہے البتہ صحت کا بیڑا غرق کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا۔ سستے پر مر مٹنے والے ذرا سوچیں اتنے میں تو ڈیری فارم والے بھی فروخت نہیں کرتے۔ دو نمبری کرنیوالوں کا بیڑا ہمیشہ آر اور ایمانداری کا دامن تھامے رکھنے والوں کا پار ہوتا ہے مگر کوئی سمجھے تو…ایک نیک روح خاتون بارے ہمارے دوست چوہدری عاشق محمود بتا رہے تھے۔ ان خاتون کے بیٹوں کا دودھ کا کاروبار ہے۔
وہ بھی وہی حربے اختیار کرتے جو اس حوالے سے عموماً رائج ہیں۔بھینسیں خاتون کی ملکیت جن کی تعداد چھ تھی۔ خاتون نے حج کا قصد کیا ،بیٹوں نے حج کی رقم سامنے ڈھیرکر دی۔خاتون نے ان پیسوں سے حج کرنے سے انکار کردیا جن میں شک کا شائبہ ہومگر وہ حج بھی کرنا چاہتی تھی، اس نیک بخت نے پانچ بھینسیں بیچ کر پیسے دودھ کے کین میں رکھ دئیے اور بیٹے کو بینک میں جمع کرانے کو کہا۔بیٹے نے کین اٹھایا ، بینک میں کین ایک سائیڈ رکھ کر بل جمع کرانے لگا۔ بل جمع کراکے بائیک کو کک ماری اور گھر چلا آیا۔گھر پہنچ کر کین کا خیال آیا، شام ہوچکی تھی ،اگلے روز بینک کھلنے سے قبل بینک کے دروازے پر کھڑا تھا۔گارڈ نے کین ٹھڈا مارکر بنچ کے نیچے کردیا تھا۔گارڈ کے اشارے پر اس نے کین اُٹھایا، الٹا کر اس میں موجود چار لاکھ روپے جمع کرا دیئے۔حلال کی کمائی تھی۔ خاتون حج پر گئی،اس دوران اکلوتی بھینس چور لے گئے۔واپسی پر بتایا گیا تو بڑی روہانسی ہوئی،کوشش کی اور تین ماہ میں بھینس اُن چوروں سے برآمد ہوگئی جن سے چوری کی بکری بھی واپس نہیں ملی تھی۔ان دو واقعات سے متاثر ہو کر بیٹوں نے توبہ کر لی۔ انکی فصلیں مثالی ہوئیں، پھر دودھ ہی کے کاروبار کو ایمانداری سے آگے بڑھایا۔ آج انکا ڈیری فارم ہے۔ حلال کی کمائی میں برکت اور حرام جس راہ سے آتا بہت کچھ لیکر اور تکلیفیں دے کر نکل جاتا ہے،ایسے شواہد آپکے گرد بکھرے پڑے ہیں۔
دودھ سمیت کسی بھی چیز میں ملاوٹ انسانیت سے دشمنی اور کرپشن بھی ہے۔ کرپشن کیخلاف ہمیشہ حکومتی سطح پر محاذ کھلا رہا ہے۔ کڑے احتساب کے وعدے اور دعوے ہوتے ہیں مگر سب بے سودکیونکہ نیتیں خراب تو کیسا حساب کتاب اور ثواب۔ کرپشن کا خاتمہ برائیوں کا محاسبہ ملاوٹ کا محاکمہ ڈنڈے کے ساتھ ساتھ موٹیویشن سے بھی ہوسکتا ہے۔ آپ ہوَس ختم کر دیں ، جس کی بھی ہوس ختم ہو گی اس برائی کا خاتمہ ممکن ہو گا۔ اس کیلئے ترغیب اور تخویف دونوں کی ضرورت ہے۔ چارہ چوری کرنے کیلئے گاما پُتر کوساتھ لے گیا۔ اسے بَنّے پر یہ کہہ کر بٹھا دیا، کوئی دیکھے تو خبردار کر دے، تھوڑی ہی دیر میں بچے نے کہا، ابا ہمیں وہ دیکھ رہا ہے۔ گامے کے پوچھنے نے بچہ بولا ’’ابا ہمیں اللہ دیکھ رہا ہے‘‘ گاما متاثر ہو کر تائب ہو گیا۔ جوان لڑکی گھر آ رہی تھی، طوفانِ بادوباراں نے اس کا چلنا ناممکن بنا دیا۔ قریبی مسجد میں پناہ لی۔ حافظ صاحب سرسوں کے دیئے کی لو میں پڑھ رہے تھے۔ لڑکی ایک کونے میں خوف سے سمٹ کر بیٹھ گئی ۔ مولوی صاحب وقفے سے انگلی دئیے کی لاٹ پر کرتے رہے۔ صبح لڑکی گھر گئی والدین کو رات کی کہانی سنائی۔ مولوی صاحب کا لاٹ پر انگلی رکھنا حیران کن تھا۔ مولوی صاحب نے بتایا کہ اکیلی خوبرو لڑکی کو دیکھ کر نیت میں فتور آتا تو دیے کی دھیمی آنچ پر انگلی رکھ کر اندازہ کرتا کہ اس گناہ سے دہکتی نارِ جہنم میں کیا حال ہوگا۔(ش س م)