اسلام آباد (نیوز ڈیسک)سپریم کورٹ نے حکومت کو آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے لیے قانون سازی کے لیے 6 ماہ کا وقت دیا ہے۔اب سوال یہ اٹھایا جا رہا ہے کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے حکومت کو دو تہائی اکثریت درکار ہو گی یا سادہ اکثریت۔اس حوالے سے بعض تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ حکومت کو دو تہائی اکثریت درکار ہو گی لیکن عدالتی کاروائیوں کو کور کرنے والے صحافی کا کہنا ہے کہ چونکہ یہ ترمیم آرمی ایکٹ میں ہو گی اس لیے دو تہائی اکثریت کی ضرورت نہیں۔صحافی صدیقق جان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ فیصلہ پڑھے بغیر
رس گلے نگلنے شررع کر دئیے گئے۔پہلی بات تو یہ ہے کہ ایکٹ میں ترمیم کرنی ہے،آئین میں نہیں،اس لیے اپوزیشن کی ضرورت نہیں۔جب کہ سینئر اینکر پرسن علی حیدر نے ٹویٹ کیا کہ قانونی ماہرین کی رائے ہے کہ چونکہ عدالت نے اپنے شارٹ آڈر میں “ایکٹ آف پارلیمنٹ” کے ذریعے قانون سازی کی ہدایت کی ہے نہ کہ آئینی ترمیم کی لہذا اس کے لیے سادہ اکثریت کی ضرورت ہو گی نہ کہ دوتہائی اکثریت کی۔اور اسی طرح شاید حکومت کو اپوزیشن کی منتیں بھی نہ کرنا پڑیں۔سابق چیف الیکشن کمشنر فخر الدین ابراہیم کے صاحبزادے نے اپنی رائے پیش کرتے ہوئے کہا کہ.واضح رہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق کیس کا فیصلہ سنا دیا اور چھ ماہ کی مشروط توسیع دے دی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دئے کہ اٹارنی جنرل نے بھی کل پہلی مرتبہ آرمی قوانین پڑھے ہوں گے۔آپ تجویز کریں کہ آرمی ایکٹ کو کس طرح درست کیا جا سکتا ہے۔ چیف جسٹس نے دوران سماعت کہا کہ آپ نے پہلی مرتبہ کوشش کی ہے کہ آئین پرواپس آئیں ، جو چیز آئین وقانون کے مطابق ہو توہمارےہاتھ بھی بندھ جاتےہیں، لیکن سمری میں سپریم کورٹ کا ریفرنس ہمیں نہیں چاہیے، معاملے میں جوبات کھٹک رہی ہےوہ 3 سال کی مدت ہے، آئین کے آرٹیکل 243 میں ایسا کچھ نہیں لکھا ہے ، آج ہم نے توسیع کردی تو 3 سال کی مدت پرمہرلگ جائے گی۔