محمد الرسول اللہ ﷺ جب اس دنیا میں تشریف لائے تو کرہ ارض کے سیاسی افق پر دو طاقتیں مرکزی حیثیت رکھتی تھیَ ایک رومن ایمپائر اوردوسری ایرانی سلطنت۔ رومن ایمپائر مسیحی مذہب کی نام لیوا تھی اور ایرانی سلطنت مجوسیت کی علمبردار ۔ ان دونوں ریاستوں میں 603ء یعنی محمدؐ کی نبوتسے 8برس پہلے خوفناک جنگوں کا آغاز ہوا۔وجہ ان جنگوں کی یہ تھی کہ سلطنت روم میں قیصرماریس کا تختہ الٹ دیا گیا اور اس کی جگہ فوکاس ( Phocas) سلطنت پر قابض ہو گیا۔ اس زمانے میں حکومتوں کا یوں بدل جانا کوئیانوکھا واقعہ تو نہ تھا مگر فوکاس جس طرح حکومت پر قابض ہوا وہ بہت ہی دل ہلا دینے والا واقعہ تھا۔
ایک تو فوکاس کا قیصر ماریس کے خاندان سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ دوسرا یہ کہ اس نے قیصر ماریس کے پانچوں بیٹے اس کی اس کی آنکھ کے سامنے ذبح کر دئیے اور اس کے بعد اسے بھی موت کی نیند سلا دیا گیا۔ پھر اسی پر بس نہیں کیا‘ بلکہ سبکے سروں کو کاٹ کر شہر کے بڑے بڑے چوراہوں میں لٹکا دیا گیا۔ چند دنوں کے بعد ماریس کی بیوی اورمفرور شہزادیوں کوبھی قتل کر دیا گیا۔ یوں پورے کا پورا خاندان انتہائی سفاکی سے ختم کر دیاگیا۔ قیصر ماریس کی حکومت کے خاتمے اور اس کے خاندان کے ساتھ کیے جانے والا یہ سلوک ایرانی حکمران خسروپرویز کے لیے ناقابل برداشت تھا۔ کیونکہ دونوں کے درمیان بڑے اچھے تعلقات تھے۔ اس کی وجہ سے یہ تھی کہ قتل ہونے والے قیصر ماریس نے ایرانی سلطنت کے حکمران خسرو پرویز پربڑے احسان کیے ہوئے تھے۔ اسی وجہ سے یہ ایرانی حکمران خسرو پرویز ماریس کو اپنا باپ کہتا تھا۔ فوکاس کے ماریس پر کیے اس ظلم پر خسرو بہت برہم ہوا اور اس نے اعلان کی اکہ جب تک روم پر فوکاس
کی حکمرانی ختم نہیں ہوجاتی وہ چین سے نہیں بیٹھے گا اور اپنے محسن قیصر ماریس کا بدلہ لے کر رہے گا۔چنانچہ603ء میں اس نے روم پر حملہ کر دیا۔ چند ہی برسوں میں وہ فوکاس کو شکستوں پر شکستیں دیتا ہوا شام میں انطاکیہ کے شہر پہنچ گیا۔ یہ شہر روم کے دارالسلطنت کے بڑے بڑے لوگ فکر مند ہو گئے۔ مزید پڑھئے:دنیا کے خوش و خرم ممالک، پاکستان کس نمبر پر ہے؟ ثابت ہوئی انہوں نے مشورے کے بعد افریقہ کے گورنر سے مدد طلب کی ۔ اس نے اپنے بیٹے ہر قل(Heraclus) کو اپنے طاقت ور بحری جہاز سے ذریعے قسطنطنیہ بھیجا۔ ہر قل نے آتے ہیں فوکاس کو چلتا کیا اور اس کے ساتھ وہی سلوک کیا جو اس نے ماریس کے ساتھ کیا تھا یعنی اس کے سارے خاندان کو ختم کر دیا اور فوکاس سمیت سب کے سر قلم کر کے چوراہوں پر لٹکا دیئے۔ یہ 610ء کاواقعہ ہے اور اسی برس دنیا میں ایک عظیم واقعہ ہو چکا تھا۔مکہ میں اللہ کے آخری نبی محمدﷺ نے اپنی نبوت کا اعلان کر دیا تھا۔ فوکاس کا بدلہ اسے مل چکا تھا‘ اس خبر کے بعد ایران کے خسرو پرویز کو چاہیے تھا کہ وہ بھی جنگ بند کر دیتا کیونکہ اس کی جنگ کا اصل مقصد فوکاس کو سزا دینا تھا نہ کہ روم کی سلطنت کو ختم کرنا! مگر خسرو نے یہ کام نہ کیا بلکہ اس کے برعکس اس نے ہر قل کی صلح کی درخواست کو رد کردیا اور کہا کہ
وہ روم کی اینٹ سے اینٹ بجا کر دم لے گا۔ دراصل اس نے اپنی اس جنگ کو مجوسیت اور مسیحیت کی جنگ قرار دے دیا تھا۔اپنی سیاسی جنگ کو مذہب کی آڑ میں لڑنا جدید و قدیم ہردور کے حکمرانوں کا آزمودہ فارمولا رہا ہے۔ خسرو پرویز نے بھی یہی کیا اورکہا کہ وہ روم میں عیسائیت کو ختم کر کے دم لے گا۔ دراصل روم کی سلطنت کو کمزور دیکھ کر اس کی نیت بدل گئی تھی اور اس نے اپنی سلطنت کو دنیا کی سب سے بڑی سلطنت بنانے کا منصوبہ بنا لیا تھا اور اپنی اس ذاتی خواہش کو ’’مجوسیت اور مسیحیت ‘‘کی جنگ بنا دیا ۔ خسروپرویز کی یہ جنگی چال بڑی کامیاب رہی۔ مسیحیوں کی دشمن قومیں بھی اس کے ساتھ مل گئیں ان میں سب سے آگے یہودی تھے ۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ خسرو پرویز کی فوج میں 26ہزار یہودی تھے۔خسروپرویز کی یہ فوج مذہبی جنونیوں کا نہ رکنے والا طوفان بن گئی اور وہ روم سلطنت کو برباد کرتے ہوئے آگے بڑھتے رہے یہاں تک کہ 613ء میں دمشق فتح ہو گیا اور اگلے سال مسیحوں کے مذہبی قبلے’’بیت المقدس‘‘ پر بھی قبضہ ہو گیا۔ اس مقدس شہر میں نوے ہزار مسیحوں کا خون بہایا گیا۔ ان کا سب سے بڑا کلیسار برباد کر دیا گیا۔ وہ صلیب جس کے متعلق مسیحوں کا عقیدہ تھا کہ اس پر حضرت عیسیؑ کو پھانسی دی گئی ہے وہ بھی اٹھالی گئی اور اسے مدائن پہنچا دیا گیا۔
لاٹ پادری(Pope)زکریا کو گرفتار کر لیا گیا اور شہر کے تمام گرجوں کو مسمار کر دیا گیا۔ اس فتح پر خسرو بہت خوش ہوا ۔اس نے غرور اور تکبر میں آکر ہر قل کو خط لکھا جس میں لکھا تھا۔ ’’سب خداؤں سے بڑے خدا‘ساری زمین کے تنہا مالک خسرو پرویز سے اس کے کمینے اور بے عقل غلام ’’ہرقل ‘‘ کے نام توکہتا ہے کہ تجھے اپنے رب پر بھروسا ہے۔ کمینے! تو پھر تیرے رب نے یروشلم (بیت المقدس) کو میرے ہاتھ سے کیوں نہ بچایا!‘‘ خسرو پرویز کی یہ فتوحات اس کے بعد اور بھی آگے بڑھتی گئیں۔ شام اور فلسطین کے بعد اردن کی باری آئی۔ یہاں تک کہ اس کی فوجیں مصر تک جا پہنچیں۔ یہ615ء کا زمانہ تھا۔جب رومی فوجیں آتش پرست ایرانیوں کے ہاتھوں شکست کھا رہی تھیں اور ان کی سلطنت صرف قسطنطنیہ اور چند علاقوں تک محدود ہوکر رہ گئی تھی‘تب ایک اور عجیب واقعہ ہوا۔ یہ واقعہ عرب میں ہوا تھا اور شہر تھا مکہ …..مکہ معظمہ!۔ رومیوں کی شکستوں پر مکہ کے مشرک بہت خوش تھے۔ وہ اپنے آپ کو ایرانی مجوسیوں کے طرف دار سمجھتے تھے اور رومیوں کو مسلمانوں کے حامی…..!اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ 615ء ہی میں مسلمانوں نے ان کے ظلم و ستم سے تنگ آکر پاس کے ملک ’’حبشہ‘‘ ہجرت کی تھی۔ حبشہ کا حکمران نجاشی مسیحی اور سلطنت روم کا حمایتی تھا۔ قریش کی خواہش کے بالک برعکس نجاشی نے مسلمانوں کے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا اور مشرکین کو صاف
صاف کہہ دیا کہ وہ مسلمانوں کو انکے حوالے نہیں کریں گے۔تبھی مشرکین نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ مسیحی کیونکہ وحی اور رسالت کو مانتے ہیں اس لیے وہ مسلمانوں کی طرح ہیں اور ایرانی مجوسی ان کی طرح رسول اور کتاب کو نہیں مانتے ‘ اس لیے ہم ایرانیوں جیسے ہیں۔ یوں وہ مسلمانوں کو تنگ کرتے اور کہتے کہ مسیحوں کی درگت بن رہی ہے تو بہت اچھا ہو رہا ہے! انہی حالات میں قرآن مجید کی سورۃ روم میں نازل ہوئی۔ اس کا آغاز ان الفاظ میں ہوا: ’’رومی قریب کی سرزمین میں مغلوب ہو گئے۔ پانی اس ہار کے بعد چند برسوں میں وہ پھر غالب آجائیں گے۔ اوروہ دن وہ ہوگا جبکہ اللہ کی دی ہوئی فتح سے اہل ایمان خوش ہو رہے ہوں گے۔‘‘قرآن مجید کے ان الفاظ میں ایک کے بجائے دو پیشین گوئیاں تھیں۔ ایک یہ کہ رومیوں کو غلبہ حاصل ہو گا اور دوسرا یہ کہ مسلمانوں کو بھی مشرکین پر فتح نصیب ہو گی۔ یہ دونوں پیشن گوئیاں ایسے زمانے میں کی گئی تھیں جب رومیوں اور مسلمانوں کی فتح کے دور دور تک کوئی آثار دکھائی نہ دیتے تھے۔ اس لیے قریش مکہ نے ان کا خوب مذاق اڑایا اور کہا کہ لو جی یہ بھی دور کی کوڑی لائے۔ کہتے ہیں چند برسوں میں رومی غالب آجائیں گے اور یہ مٹھی بھر مسلمان جو کھلے عام نماز بھی نہیں پڑھ سکتے ہم فتح یاب ہوجائیں گے!قرآن مجید میں ’’چند برسوں‘‘ کے لیے جو لفظ استعمال کیا گیا تھا وہ
’’بضع ‘‘ تھا جس کا مطلب تھا دس برسوں سے کم اور تین برسوں سے زیادہ۔ لیکن رومیوں کی جو حالت ہو چکی تھی اس سے ظاہر ی طور یہی لگتا تھا کہ وہ کبھی بھی فتح حاصل نہیں کر سکیں گے ‘ وجہ اس کی یہ تھی کہ رومیوں کی حالت دن بدن بدسے بدتر ہو تی جارہی تھی۔ 619ء تک پورا مصر ایران کے قبضے میں چلا گیا اور مجوسی فوجوں نے طرابلس (موجودہ لیبیا) کے قریب پہنچ کر اپنے جھنڈے گاڑ دیئے۔ایشئائے کوچک میں ایرانی فوجیں رومیوں کو روندتی ہوئی باسفورس کے کنارے پہنچ گئیں اور اس سے پہلے 617ء میں انھوں نے قسطنطنیہ کے پاس خلقدون (موجودہ قاضی کوئی ) پر قبضہ کر لیاتھا۔ اس موقع پر قیصر نے خسرو پرویز کے پاس اپنا سفیر بھیج کر نہایت عاجزی سے درخواست کی کہ میں ہر قیمت پر صلح کرنا چاہتا ہوں۔ مگر پرویز نے جواب دیا۔’’اب میں قیصر کو اس وقت تک امان نہ دوں گا جب تک وہ زنجیروں میں جکڑا ہوا میرے سامنے نہیں آئے گا اور صلیب سے نفرت کر کے خدائے اہرمن (آگ) کی بندگی اختیار نہ کرے گا۔ ‘‘ اس لیے مشرکین نے صحابہ کرامؓ کا خوب خوب مذاق اڑایاکہ بھلا یہ کیسے ممکن ہے!ایک کافر ابی بن حلف نے حضرت ابوبکر صدیقؓ سے کہا ’’اگر تمیں اپنے رسولؐ پر اتنا ہی یقین ہے تو آؤ مجھ سے شرط لگاؤ…..اگر رومی تین برسوں کے اندر اندر فتح یاب ہو گئے تو میں تمہیں دس اونٹ انعام دوں گا‘‘ ابی بن حلف سیدنا ابوبکرصدیق ؓ
کا ان کے اسلام لانے سے پہلے دوست ہوا کرتا تھا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اللہ کے رسولؐ سے مشورہ کرنے کے بعد اس کہا’’ میں دس نہیں سو اونٹ کی شرط لگاتا ہوں مگر رومی تین برس تک ‘دس برسوں کے اندر اندر فتح حاصل کریں گے۔ ‘‘ ابی ابن حلف نے شرط منظور کر لی۔ یہ شرط باقاعدہ لکھ لی گئی۔ اس کے بعد وقت کا پہیہ چلتا رہا۔رومیوں کی شکست کاسلسلہ جاری رہا۔ جب قیصر نے خسرو پرویز کی طرف سے ذلت آمیز شرائط صلح کو قبول نہ کیا تو اس نے قسطنطنیہ چھوڑ کر تیونس جانے کا ارادہ کر لیا۔ جسے اس زمانے میں قرطانیہ کہتے تھے۔ 622ء میں قیصر کے حالات کچھ بہتر ہوئے ۔ اس نے کلیسا کے پادریوں سے کہا کہ مسیحیت کو بچانے کے لیے اس کی مددکریں۔ پادریوں نے کلیسا میں جمع ہونے والی دولت اسے سود پر دی۔ تب قیصر بڑی منصوبہ بندی کے ساتھ ایرانیوں کی پشت کی طرف سے حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا۔ یہ وہی نازک زمانہ تھاکہ جب مسلمان مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ پہنچ گئے تھے۔قیصر نے ایران پر حملہ آرمینیا سے شروع کیا اور اس کا ہر حملہ کامیاب رہا۔ اس کی فتوحات کی تیزی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ حیرت انگیز طور پر دوسرے ہی بر624ء میں اس نے مجوسیوں کے سب سے بڑے آتش کدے کو تباہ و برباد کر دیا۔ یہ آتش کدہ آذربائیجان کے مقام پر رومیاہ میں تھا اور زرتشت (مجوسی جنہیں اپنے مذہب کا بانی
مانتے ہیں)کا مقام پیدائش سمجھا جاتا تھا۔ 624ء وہی سال ہے جب مسلمانوں کو غزوہ بدر کی شان دار فتح ہوئی تھی‘ یعنی ٹھیک نو برسوں کے بعد قرآن مجید کی پیش گوئی کے عین مطابق رومی دوبارہ ایرانیوں پر غالب آگئے اور قرآن مجید دوسری پیش گوئی کے مطابق اس برس انہیں غزوہ بدر میں مشرکین مکہ پرشان دار فتح نصیب ہوئی جس میں کفار کے تمام چوٹی کے سردار جہنم رسید ہو ئے۔اس کے بعد بھی حالات قرآن مجید کی پیش گوئی کے مطابق بدلتے رہے اور رومی ‘ایرانی مجوسیوں یعنی آتش پرستوں کو شکست پر شکست دیتے چلے گئے۔ یہاں تک کہ 627ء میں انہوں نے نینوا کے مقام پر ایرانیوں کوفیصلہ کن شکست دی۔ اگلے ہی برس 628ء میں تاریخ نے پھر اپنے آپ کو دہرایا۔ خسرو پرویز کے خلاف اس کے خاندان ہی میں بغاوت ہو گئی۔ اس کے اٹھارہ بیٹوں کو اسکے سامنے قتل کردیا گیا اور چند روز بعد وہ بھی جیل کی سختیوں کی وجہ سے مر گیا۔ یوں قرآن مجیدکی پیش گوئی کے مطابق رومیوں کو فیصلہ کن فتح حاصل ہوئی اور ایرانی مجوسی کی شکست کھا گئے۔یہی وہ سال تھا جب مسلمانوں نے صلح حدیبیہ کی تھی اور قرآن مجید نے اسے ’’کھلی فتح‘‘ قرار دیا تھا۔ انگریز مورخ گبن نے اپنی مشہور کتاب (رومی سلطنت کا ذوال اور خاتمہ) میں لکھا ہے کہ قرآن مجید کی اس پیش گوئی کے بعد سات آٹھ برس تک حالات ایسے تھے کہ کوئی شخص یہ تصور نہ کرسکتا تھا کہ رومی سلطنت ایران پر غالب آجائے گی‘ بلکہ غلبہ تو ایک طرف رہا‘کسی کو یہ امید بھی نہ تھی کہ اب یہ سلطنت زندہ رہے گی کہ نہیں !(صفحہ 788‘طبع ماڈرن لائبریری ‘نیویارک) قرآن مجید کی اس پیش گوئی کے پوری ہونے کے بعد عرب کے کئی لوگ مسلمان ہو گئے۔ ابی بن حلف اس وقت تک مرچکا تھا لیکن اس کے قبیلے کے لوگوں نے اپنی شکست تسلیم کی اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کو شرط کے مطابق سو اونٹ دیئے۔حضر ت ابو بکر صدیقؓ یہ اونٹ لے کر حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ آپ ؐ نے حکم دیا کہ جس وقت شرط ہوئی تھی اس وقت جوئے کے حرام ہونے کا حکم نہیں ہوا تھا۔ اس طرح کی شرط چونکہ جوئے ہی کی قسم ہے اس لیے اب یہ اونٹ خود آپ نہیں لے سکتے۔ چنانچہ حضورؐکے حکم پر حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے یہ سو اونٹ صدقے میں خیرات کر دیئے۔ یوں قرآن مجید کی سورۃ روم آج بھی زندہ معجزہ بن کر اللہ اور اس کے رسول ؐ کی سچائی بیان کر رہی ہے ! یاد رہے سورۃ روم کی جن ابتدائی آیات میں یہ پیش گوئی بیان ہوئی ہے اس کی تاویل میں پوری امت مسلمہ میں کوئی اختلاف نہیں۔ حتی کہ وہ مستشرقین جنہوں نے قرآن مجید کا ترجمہ کیا ہے وہ بھی اسے قرآن کی ’’محیرالعقول ‘‘ پیش گوئی قرار دیتے ہیں۔