لاہور (ویب ڈیسک) چیئرمین جوڈیشل واٹر کمیشن جسٹس (ر) علی اکبر قریشی نے انکشاف کیا ہے کہ ’’لاہور میں زیر زمین پانی کی سطح آٹھ سو فٹ سے بھی نیچے چلی گئی ہے اور اگر یہی صورتحال رہی تو 2025ء میں لاہور میں پانی ختم ہو جائے گا، لاہور کی 700فیکٹریاں گندا پانی بورنگ کے نامور کالم نگار واصف ناگی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ذریعے زمین کے اندر ڈال رہی ہیں۔
اب تک 200فیکٹریوں کو نوٹسز بھی جاری کئے گئے ہیں‘‘۔وہ لاہور جہاں کے شہری علاقوں میں ہمارے بچپن میں صرف 40سے 45فٹ پر پانی آ جاتا تھا، آج دو سو فٹ جا کر جو پانی مل رہا ہے وہ بھی پینے کے لائق نہیں۔ اب تک ہمارے حکمرانوں اور ڈیمز کی مخالفت کرنے والوں کو پانی کے بحران کی سنگینی کا احساس نہیں ہو رہا۔ عوام تو ہمارے بے چارے ناسمجھ اور حالات سے بے خبر ہیں کہ انہیں جو بھی حکومت جس طرف لگاتی ہے، اسی طرف لگ جاتے ہیں۔ لاہور کو کیا اورنج ٹرین کی ضرورت تھی یا صاف پانی اور جدید اسپتالوں کی؟لو جی اب ایک اور خبر آ گئی ہے کہ ٹھوکر سے جلو موڑ تک ٹرام چلائی جائے گی۔ 36کلو میٹر کا ٹریک بچھایا جائے گا ، اب اس پر کروڑوں روپے لگ جائیں گے، محکمہ ٹرانسپورٹ یہ منصوبہ شروع کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور چین کی کسی کمپنی سے معاہدے وغیرہ کی خبر ہے۔ ارے اللہ کے بندو! لاہور میں انگریزوں کے دور کا بڑا زبردست سٹی ٹرین ٹریک موجود ہے جو شاہدرہ سے رائیونڈ اور جلو موڑ تک ہے۔ بجائے اس کے کروڑوں روپے کا گھپلا ہو اور پھر نیب افسروں کو پکڑے، اس سے بہتر ہے کہ اس ٹریک کو ٹھیک کر کے ٹرام یا ٹرین شروع کر دی جائے۔ شیخ رشید ویسے ہر ہفتے لاہور کے ریلوے ہیڈ کوارٹر میں آ کر سیاسی بیان بازی تو بہت کرتے ہیں
کبھی وہ ہربنس پورہ اور مغل پورہ بھی جا کر دیکھیں کہ کس طرح ریلوے بوگیاں کھڑی کھڑی تباہ ہو رہی ہیں اور کس طرح ریلوے ٹریکوں پر لوگوں نے قبضہ کر رکھا ہے۔ خیر اس پر پھر کبھی بات کریں گے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔ جوڈیشل واٹر کمیشن کی واضح وارننگ کے باوجود کسی حکومتی عہدیدار یا سول سوسائٹی نے اس پر بات نہیں کی اور 2025ء میں سال ہی کتنے رہ گئے ہیں؟ ذرا دیر کو سنجیدگی کے ساتھ اس مسئلے کی سنگینی کے بارے میں سوچیں۔ جب لاہور میں پینے کے لئے، نہانے کے لئے، کاشت کے لئے پانی نہیں ملے گا، تو پھر کیا ہو گا؟اگلے روز ہم اور پروفیسر ممتاز حسن پاکستان کی ایک انتہائی اہم شخصیت کے ساتھ ایک نشست میں پانی کے مسئلے پر بات کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اگر ڈیم نہ بنے تو پورا ملک بنجر ہو جائے گا، فصلوں کے لئے پانی نہیں ملے گا، لوگ پینے اور نہانے کے لئے پانی کو ترسیں گے اور لوگوں کے ذہن میں یہ بات کہ ڈیمز کے لئے جو پیسے اکٹھے کئے گئے ہیں وہ آج کہاں ہیں؟ تو اس سلسلے میں عوام کو بالکل مطمئن رہنا چاہئے کہ ان کے دیئے گئے عطیات کی رقوم بالکل محفوظ ہے اور اس وقت اُس پر کام شروع ہو چکا ہے۔ اگلے روز ایک اہم شخصیت ذکر کر رہی تھی کہ زرداری کے ایک فرنٹ مین کے بیٹے کو جب جیل میں رکھا گیا تو اس کی طبیعت پانی پینے سے خراب ہو گئی حالانکہ جیل حکام اس کو منرل واٹر دیتے رہے۔
پتا چلا کہ موصوف کے گھر میں جو پانی استعمال ہوتا ہے وہ فرانس سے آتا ہے۔ پانی فروخت کرنے والی ایک کمپنی کے مالکان تو اپنی کمپنی کا پانی بھی نہیں پیتے بلکہ ان کا پانی بھی فرانس سے آتا ہے۔ جن لوگوں کا پانی فرانس اور ڈنمارک یا دیگر ممالک سے آئے گا ان کو کیا پتا کہ اس ملک میں کیا ہونے والا ہے؟ کسی زمانے میں لاہور اور پاکستان کے کئی شہروں کا پانی اس قدر صاف اور جراثیم سے پاک تھا کہ لوگ کارپوریشن کے نلکوں کا پانی پیا کرتے تھے۔ دنیا بھر میں سالانہ 35لاکھ کے قریب افراد آلودہ پانی پینے سے ہلاک ہو جاتے ہیں۔ ایشیا، افریقہ، لاطینی امریکہ اور لندن کے نصف سے زیادہ دریا آلودگی اور امراض پھیلانے والے جراثیم سے بھر گئے ہیں۔ کبھی لاہور کے راوی کا پانی پینے کے قابل تھا اور یہاں پر دس اقسام کی مچھلی پائی جاتی تھی۔ آج راوی اور لاہور کی نہر گندا نالا بن چکی ہے۔ اس دریا اور نہر کے پانی کو آلودہ ہمارے لوگوں نے کیا ہے۔ڈنمارک، کینیڈا، فرانس، امریکہ اور کئی ممالک میں آپ نلکوں سے آنے والا پانی پی سکتے ہیں۔ ہم نے خود ڈنمارک کے ہوٹل میں قیام کے دوران واش روم میں لکھا ہوا دیکھا تھا کہ آپ ٹیپ واٹر پی سکتے ہیں۔ اس ملک میں جو لوگ ڈیمز کی مخالفت کر رہے ہیں وہ ملک دشمن ہیں اور اس ملک کو بنجر، ویران اور بے آباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔جس ملک میں پانی فروخت کرنے والی کمپنیوں کے مالکان نے غریب عوام کی زمین سے مفت پانی حاصل کر کے اربوں روپے کمائے، کیا آج وہ کسی کو جوابدہ نہیں۔ اللہ بھلا کرے سابق چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کا، جنہوں نے پانی فروخت کرنے والی کمپنیوں کے خلاف ایکشن لیا اور عوام میں پانی کی قلت کے بارے میں شعور و آگاہی پیدا کی۔ آج پھر پانی فروخت کرنے والی کمپنیاں من مانیاں کر رہی ہیں۔ اگر عوام ان مالکان کے گھروں میں استعمال ہونے والا پانی اور خوراک ایک بار دیکھ لیں تو یقین کریں، حیرت سے مر جائیں گے۔ باہر کے ممالک کا پانی، باہر کے ممالک سے سبزیاں اور گوشت تک منگوایا جاتا ہے مگر موت پھر بھی آ جائے گی اور بیماریاں پھر بھی لگ جائیں گی۔۔زندگی سے اتنا پیار نہ کر۔۔۔چلے تجھ کو بھی جانا ہے زمین کے اندر۔(ش س م)