خیوا کی فضا میں بہادر مگر بد نصیب جلا الدین کی اداسی آج تک موجود تھی۔ہم خیوا کے قلعہ کے سامنے کھڑے تھے”یہ طالب گیٹ“ تھا ‘ خیوا کے چاردروازوں میں سے ایک دروازہ‘ قلعے کی ہیبت دلوں پر دستک دے رہی تھی‘ گیٹ کی بلندی دستار گرا رہی تھی اور قلعے کی گلیوں کی رستی برستی ہوا ہڈیوں میں اتر رہی تھی‘میں بالآخر خیوا کے اس قدیم شہر پہنچ گیا جس کا فسوں آڑھائی ہزار سال سے مقناطیس کی طرح سیاحوں کو کھینچ رہا ہے‘ خیوا تاریخ کے اوراق میں گم فقط ایک خاموش شہر نہیں یہ ایک جادوگری بھی ہے اور یہ جادوگری ہمیشہ تاریخ کے مسافروں کو اپنے پیروں تلے چھپا لیتی ہے‘
یہ الخوارزمی کا شہر تھا‘ اس الخوارزمی کا شہر جس نے دنیا کو 810ءمیں الجبرہ کی سائنس دی‘ وہ نہ ہوتا تو شاید دنیا میں آج تعمیرات کا ماڈرن فن نہ ہوتا‘ کائنات کی وسعتیں ماپنے کا ڈھنگ نہ ہوتا‘ جدید ریاضی نہ ہوتا اور شاید انسان آج تک چاند پر بھی نہ پہنچا ہوتا‘ یہ البیرونی کا شہر بھی تھا‘ البیرونی خراسان کے گاﺅں بیرون میں پیدا ہوا‘ یہ اپنے وقت کی سب سے بڑی فراست تھا‘ یہ بیرون سے نکلا‘ خیوا پہنچا اور یہاں علم و فضل کے موتی بانٹنے لگا محمود غزنوی نے 1017ءمیں خیوا فتح کیا تو یہ البیرونی کو غزنی لے گیا‘ البیرونی غزنی سے 1017ءمیں ہندوستان گیا اور اس نے ہندوستان کے بارے میںتاریخ الہندکے نام سے شاندار کتاب لکھی‘ یہ کتاب ہندوستان کا پہلا تعارف تھی‘ یہ بو علی سینا کا شہر بھی تھا‘ بو علی سینا بخارا میں پیدا ہوا لیکن اسے اصل پذیرائی خیوا میں نصیب ہوئی‘ خیوا کے بادشاہوں نے اس پر نوازشات کے تمام دروازے کھول دیے اور یہ پھر یہاں سے پوری دنیا تک پہنچا اور یہ جلال الدین مینگو باردی کاشہر بھی تھا‘
وہ بد نصیب بہادر جس نے چنگیر خان کو پہلی اور آخری بار شکست دی‘ چنگیز خان ایک آندھی تھا‘ ایک طوفان تھا‘ وہ منگولیا سے نکلا اور دیکھتے ہی دیکھتے آدھی دنیا اپنے قدموں میں روند دی‘ چنگیز خان کو زندگی میں صرف ایک بار شکست ہوئی اور یہ شکست خیوا کے آخری حکمران اور دنیا کے آخری خوارزم شاہ جلال الدین مینگو باردی نے دی چنگیز خان مینگوباردی کے حوصلے‘ بہادری اور عزم پر حیران رہ گیا‘ اس نے ایک دن کہا ”کاش کوئی شخص میرے سارے بیٹے لے لے اور مجھے جلال الدین دے دے میں پوری دنیا فتح کر لوں گا“ یہ وہ بدنصیب بہادر تھا جس کے بارے میں علامہ اقبال نے ”دشت تو دشت ہیں دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے‘ بحر ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے“ جیسا عظیم شعر لکھا اور جس کے کارنامے پر چنگیز نے پینٹنگ بنوائی اور یہ پینٹنگ آج بھی برٹش میوزیم لندن میں موجود ہے‘ جلال الدین مینگو باردی کون تھا‘ یہ خیوا سے اٹک‘ کالا باغ اور بھکر کیسے پہنچا‘ اس نے لاہور کیسے فتح کیا‘ یہ اوچ شریف کیوں پہنچا اور یہ 32 سال کی عمر میں مرنے کے باوجود پوری زندگی چنگیز خان کے دل میں کیوں رہا‘ یہ ساری کہانی آگے آئے گی لیکن آپ پہلے خیوا کے بارے میں سنئے‘ یہ کیا ہے اور یہ کہاں واقع ہے۔ خیوا ازبکستان کا جنوبی شہر ہے‘ یہ دنیا کے قدیم ترین شہروں میں شمار ہوتا ہے‘ یہ آج سے پانچ سو سال پہلے تک دنیا کا سب سے بڑا کلچرل سنٹر سمجھا جاتا تھا یہ شاہراہ ریشم پر واقع تھا
یہ یورپ سے لے کر چین تک اور چین سے لے کر ہندوستان تک لاکھوں کروڑوں لوگوں کی خواہش تھا‘ یہ شہر حضرت نوح ؑ کے صاحبزادے سائم نے آباد کیا‘ آج بھی قلعے میں ان کے ہاتھ کا کھودا ہوا کنواں موجود ہے‘ آپ اگرسنٹرل ایشیاءکا نقشہ سامنے پھیلائیں تو آپ کو جہاں ازبکستان‘ قزاقستان اور ترکمانستان ملتے دکھائی دیں گے آپ کو خیوا کا شہر وہاں ملے گا‘ یہ شہر ماضی میں خوارزم نامی ملک کا دارالحکومت تھا‘ یہ ریاست سکندراعظم کے خیوا پر حملے سے 980 ءسال قبل قائم ہوئی‘ یہ ایک وسیع ریاست تھی‘ اس میں ترکمانستان‘ ایران‘ ازبکستان اور قزاقستان کے علاقے شامل تھے‘ آپ کو خیوا اور خوارزم کا ذکر ایران کے اساطیری قصوں میں بھی ملے گا‘ آپ گلستان اور بوستان میں بھی اس شہر کا ذکر پڑھتے ہیں‘ خیوا ”ایریل سی“ کی ہمسائیگی میں بھی واقع ہے‘ ایریل سی 1975ءتک صاف پانی کا سمندر تھا‘ سنٹرل ایشیاءکے دو بڑے دریا آمو اور سریا ہزاروں سال تک ایریل سی میں گرتے رہے لیکن پھر ستر کی دہائی میں سوویت یونین نے ان دونوں دریاﺅں کا رخ موڑ دیا اور پھر اس کے بعد دنیا کی تاریخ میں ایک عجیب واقعہ پیش آیا‘ لاکھوں میل تک پھیلا سمندر خشک ہو گیا‘ آج 35 برس بعد ایریل سی کی جگہ ایک طویل صحرا ہے‘ آپ اگر اس صحرا کے کنارے پہنچ جائیں تو آپ ریت کے سمندر میں بحری جہازوں کے ڈھانچے دیکھ کر حیران رہ جائیں گے‘ یہ ڈھانچے آنجہانی ایریل سی کی آخری نشانی ہیں‘ آپ کو اگر زندگی میں موقع ملے تو
آپ قزاقستان‘ ازبکستان یا ترکمانستان کے آخر میں ”ایریل سی“ تک ضرور جائیں اور اپنی کھلی آنکھوں سے خشک سمندر اور ریت کے اس خشک سمندر میں بحری جہازوں کے ڈھانچے دیکھیں ¾ آپ کیلئے یہ ”لائف ٹائم“ تجربہ ہو گا۔ ”خیوا“ ایریل سی کی ہمسائیگی میں واقع ہے‘ یہ تاریخ کا اہم ترین شہر تھا‘ یہ شہر سکندر اعظم نے 328 قبل مسیح میں فتح کیا جبکہ عرب 712 میں خیوا پہنچے‘ یہ شہر قیتبہ بن مسلم نے فتح کیا‘ دسویں صدی میں مقامی تاجروں نے علم بغاوت بلند کیا‘ آزادی حاصل کی‘ خوارزم کی ریاست قائم ہوئی اور حکمران خوارزم شاہ کہلانے لگے‘ خیوا کے گرد مضبوط اور طویل فصیل بنائی گئی‘ یہ فصیل آج بھی قائم ہے‘ یہ مٹی اور پتھروں کی دس میٹر اونچی‘ آٹھ میٹر چوڑی اور دو ہزار دو سو میٹر طویل فصیل ہے‘ آپ دور سے فصیل دیکھتے ہیں اور اس کی ہیت آپ کے دل میں بیٹھ جاتی ہے‘ شہر فصیل کے اندر آباد تھا‘ یہ شہر تجارت‘ علم‘ سائنس اور کلچر کا عظیم مرکز تھا‘ شہر میں 80 مدارس تھے‘ ان مدارس میں پورے سنٹرل ایشیاءسے طالب علم اتے تھے‘ ان میں 27 مدارس آج بھی سلامت ہیں‘ شہر کے اندر کارواں سرائے بھی تھے‘ محلات بھی ‘ حمام بھی اور بازار بھی‘ بادشاہ شروع میں خوارزم شاہ کہلاتے تھے لیکن چنگیز خان کی آمد اور قبضے کے بعد یہ خان کہلانے لگے‘ یہ خان سوویت یونین کا حصہ بننے تک موجود رہے اور یہ خان ہی کہلاتے رہے‘ یہ شہر 1017ءمیں محمود غزنوی نے بھی فتح کیا‘ وہ شہر کی ساری دولت اور خواتین کے ساتھ البیرونی کو بھی غزنی لے گیا لیکن شہر کو اصل نقصان چنگیز خان نے پہنچایا‘
چنگیز چین سے سنٹرل ایشیا میں داخل ہوا‘ یہ جب دریائے آمو کے قریب پہنچا تو خوارزم میں علاﺅ الدین دوم کی حکومت تھی‘ یہ بزدل اور سست شخص تھا تاہم اس کا بیٹا جلال الدین انتہائی زیرک اور بہادر انسان تھا‘ جلال الدین کا لقب مینگو باردی (ہمیشہ رہنے والا) تھا‘ جلال الدین نے والد کو سمجھایا ہمیں چنگیز خان کو دریائے آمو پر روکنا چاہیے‘ منگولوں کی فوج دریا پار کر کے تھک جائے گی‘ ہمیں اس وقت ان پر حملہ کر دینا چاہیے‘ مینگو باردی کی حکمت درست تھی لیکن خوارزم شاہ نہ مانا‘ خوارزم شاہ کا خیال تھا ہمیں چنگیز خان کو سمر قند اور بخارہ کی فوجوں سے لڑنے کا موقع دینا چاہیے‘ یہ فوجیں جب منگولوں کو کمزور کر دیں گی تو پھر ہم اس پر حملہ کریں گے‘ یہ حکمت عملی غلط ثابت ہوئی کیونکہ منگولوں نے دریائے آمو عبور کرتے ہی تباہی مچا دی‘ چنگیز خان سمر قند آیا اور اس نے پورا شہر جلا کر رکھ کر دیا‘ کھوپڑیوں کے مینار بنائے اور آگے بڑھ گیا‘ بخارہ کے ساتھ بھی یہی ہوا‘ یہ شہر بھی جلا کر کوئلہ بنا دیا گیا‘ منگول اس کے بعد خیوا کی طرف بڑھے‘ شہرکا محاصرا ہوا تو خوارزم شاہ علاﺅالدین عوام کو چھوڑ کر بھاگ گیا اور کیسپئن سی کے ویران جزیرے میں پناہ گزین ہو گیا‘ وہ جزیرے میں بیمار ہوا اور جلا وطنی کے عالم میں انتقال کر گیا جبکہ چنگیز خان نے خیوا کی اینٹ سے اینٹ بجا دی‘ منگولوں نے کل آبادی قتل کر دی‘ شہر لوٹ لیا اور گھروں کو آگ لگا دی‘ خیوا میں کھوپڑیوں کے مینار‘ خون‘ ہڈیوں اور راکھ کے سوا کچھ نہ بچا‘
خوارزم شاہ کے انتقال کے بعد چلال الدین بادشاہ بن گیا‘ وہ خیوا کی شکست سے اس قدر شرمندہ تھا کہ اس نے خوارزم شاہ کا لقب چھوڑ دیا اور سلطان کہلانے لگا۔ مینگو باردی نے فوج جمع کی اور منگولوں پر حملے شروع کر دیے‘ وہ حملے کرتا کرتا افغانستان پہنچا‘ افغانستان میں اس نے شمالی افغانستان کے قبائلی‘ تاجک قبائل اور خوارزمی قبائل پر مشتمل فوج بنائی‘ کابل کے شمال میں”پروان“ کے علاقے میں منگولوں سے لڑائی ہوئی اور جلال الدین یہ جنگ جیت گیا‘ یہ چنگیزی فوج کی پہلی اور آخری شکست تھی‘ شکست نے چنگیز خان کو حیران کر دیا اور وہ اپنے تینوں بیٹوں کے ساتھ طویل لشکر لے کر مینگوباردی کے تعاقب میں نکل کھڑا ہوا‘ جلال الدین اس کا مقابلہ کرنا چاہتا تھا لیکن بد قسمتی سے سفید گھوڑے کی ملکیت پر اس کے سسر اور تاجک سردار کے درمیان اختلاف ہو گیا اور تاجک فوجی رات کے اندھیرے میں اسے اکیلا چھوڑ کر چلے گئے‘ جنگ ہوئی اور جلال الدین کو ہندوستان کی طرف بھاگنا پڑ گیا‘ درہ خیبر پار کیا اور وہ پنجاب کی طرف روانہ ہو گیا‘ چنگیز خان بھی اس کے تعاقب میں ہندوستان داخل ہو گیا‘ جلال الدین اپنی طاقت میں اضافہ کرنے کیلئے چھوٹے بڑے شہر فتح کرتا رہا‘ وہ ڈی آئی خان بھی آیا‘ اس نے بھکر بھی فتح کیا‘ وہ آخر میں ایک ایسی جگہ پہنچ گیا جہاں آج کالا باغ کا قصبہ اور اٹک شہر آباد ہیں ¾ آپ اگر موٹروے کے ذریعے اسلام آباد سے پشاور کی طرف جائیں تو آپ جب دریائے سندھ کے قریب پہنچیں گے
تو آپ کو موٹروے کے دائیں جانب ایک چھوٹا سا گاﺅں نظر آئے گا‘ یہ گاﺅں ”ہنڈ“ کہلاتا ہے‘ ہنڈ ماضی کا اہم ترین شہر تھا‘ یہ بودھ مت کے دور میں پشاور ویلی کا دارلحکومت تھا‘یہ سلطنت افغانستان سے لے کر اٹک اور اٹک سے لے کر سوات تک پھیلی تھی‘ ہنڈ‘ اٹک اور کالا باغ کے ایریا میں جہاں دریائے کابل دریائے سندھ سے ملتا ہے جلال الدین وہاں کشتیوں کا پل تیار کرا رہا تھا لیکن پل مکمل ہونے سے قبل منگول فوج وہاں پہنچ گئی‘ منگولوں اور مینگو باردی کی فوجوں میں لڑائی ہوئی‘ مینگو باردی کو شکست ہو گئی‘ چنگیز خان اسے زندہ گرفتار کرنا چاہتا تھا‘ منگولوں نے جلال الدین مینگو باردی کو گھیر لیا‘ اس وقت اس کے تین اطراف منگول سپاہی تھے اور پشت پر دریائے سندھ پوری طغیانی کے ساتھ بہہ رہا تھا‘ جلاالدین نے گرفتار ہونے کے بجائے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور گھوڑے سمیت دریائے سندھ میں چھلانگ لگا دی‘ اور وہ گھوڑے کے ساتھ تیرتا ہوا دریائے سندھ کے پار پہنچ گیا‘ چنگیز خان اس بہادری پر حیران رہ گیا‘ اس نے اس وقت کہا ”یہ اگر میرا بیٹا ہوتا تو میں پوری دنیا فتح کر لیتا“ دریائے سندھ عبور کرنے کے بعد جلال الدین کی جلاوطنی کا طویل دور شروع ہو گیا۔ وہ دہلی گیا‘ سلطان التمش سے ملا‘ اس سے منگولوں کے خلاف مدد مانگی‘ التمش نے اس کے خلاف اعلان جنگ کر دیا‘ وہ لاہور سے نکلا‘ اوچ شریف پہنچا‘ ناصر الدین قباچر کو شکست دی اور سندھ کی طرف نکل گیا‘
وہ فوج جمع کرتا رہا وہ ایران پہنچا‘ 1224ءمیں منگولوں پر حملہ کیا مگر کامیاب نہ ہو سکا‘ وہ وہاں سے کاکشیا پہنچا‘ آذر بائیجان فتح کیا‘ تبریز کو دارلحکومت بنایا‘ جارجیا فتح کیا‘ تبلیسی شہر کی اینٹ سے اینٹ بجائی‘ ترکی پہنچا‘ ترکی کے سلجوقوں کے ساتھ منگولوں کے خلاف اتحاد بنانے کی کوشش کی‘ دال نہ گلی‘ سلجوقوں نے بعد ازاں ایوبی فوج کے ساتھ جلال الدین کے خلاف اتحاد قائم کر لیا‘ یہ دونوں مل کر جلال الدین پر حملہ آور ہوئے‘ وہ انھیں سمجھاتا رہا مسلمانوں کو اصل خطرہ منگولوں سے ہے لیکن وہ اسے مارتے رہے یہاں تک کہ وہ سلجوقوں اور ایوبیوں کے خلاف زندگی کی آخری جنگ ہار گیا‘ وہ شکست کھانے کے بعد دیار بکر کی طرف نکل گیا‘ راستے میں اسے کردلٹیروں نے گھیر لیا‘ وہ انھیں سمجھاتا رہا ”میں ایک بڑی جنگ لڑنا چاہتا ہوں“ لیکن لٹیروں نے اسے قتل کر دیا یوں دنیا کا ایک ایسا عظیم مسلمان سپاہی 32 سال کی عمر میں لیٹروں کے ہاتھوں مارا گیا جس کی بہادری نے چنگیز خان تک کو حیران کر دیا تھا‘ جلال الدین کے مرنے کے بعد سلطان صلاح الدین ایوبی نے اس کے خوارزمی سپاہیوں کو اپنے لشکر میں شامل کرلیا‘ یہ سپاہی 1243ءمیں یوروشلم پہنچے اور انہوں نے 1244ءمیں بیت المقدس فتح کیا‘ بیت المقدس 1917ءتک مسلمانوں کے قبضے میں رہا۔ میں جمعہ 27 مارچ 2015 کی دوپہر جلا الدین مینگوباردی کے خیوا شہر پہنچ گیا‘ میںطالب گیٹ کے سامنے کھڑا تھا اور تا حد نظر خیوا کی فصیل۔ زیروپوائنٹ/ جاوید چودھری غلام مولانا طارق جمیل صاحب نے ایک واقعہ بیان کیا کہ میرے والد صاحب کا ایک دوست پولیس میں انسپکٹر کے عہدے پر فائز تھا‘
اس کو اچھے سے اچھا رشتہ مل سکتا تھا لیکن اس کی ماں نے خاندان کی ایک بدصورت لڑکی کے ساتھ اس کی منگنی کر دی‘ لڑکا بار بار انکار کرتا رہا کیونکہ ان کا جوڑ بھی نہیں تھا لیکن ماں کی ضد ختم نہیں ہوئی‘ اس آدمی نے میرے والد صاحب سے مشورہ کیا‘ والد صاحب نے کہا کہ ماں کی بات مان لو‘ اس میں فائدہ ہے‘ اس آدمی نے ہاں کر دی‘ شادی ہو گئی‘ دلہن گھر آ گئی‘ یہ کمرے میں گیا اور جا کر صوفے پر سو گیا‘ صبح اٹھ کر ڈیوٹی پر چلا گیا‘ رات کو گھر آیا تو پھر سو گیا‘ بیوی بلاتی تھی جواب نہ دیتا‘ کمرے میں آتی تو یہ کمرے سےباہر نکل جاتا‘ بیوی باہر آتی تو یہ کمرے میں چلا جاتا‘ بیوی اس کے کپڑے دھوتی‘ جوتے پالش کرتی‘ کھانا پکا کر اس کے سامنے رکھتی‘ دل ہوتا تو یہ کھا لیتا ورنہ اٹھا کر کچن میں رکھ دیتا‘ اگر رات کو دو بجے بھی گھر آتا تو بیوی تازہ روٹی پکا کر سالن گرم کر کے اس کے سامنے رکھ دیتی لیکن یہ بیوی کو بلاتا نہیں تھا‘ سلام کا جواب بھی نہیں دیتا تھا‘ ایک دن بیوی نے سوچا کہ اگر میں احتجاج کروں گی‘ اپنے ماں باپ بہن بھائیوں کو یا سسرال والوں کو بتاؤں گی تو یہ آدمی مجھے طلاق دے گا تو پھر میں کیا کروں گی‘ میری قسمت میں اگر یہی کچھ ہے تو یہ مجھے قبول ہے لیکن علیحدگی قبول نہیں‘ گھر میں نوکر بھی تو ہوتے ہیں‘ میں آج سے اس کی بیوی نہیں ہوں‘ اس کی نوکرانی ہوں‘ بس یہ نوکرانی بن گئی۔ خاوند تو کیا گھر کے تمام افراد کی نوکرانی بن گئی‘ گھر والے اس کے حسن اخلاق کے گرویدہ ہو گئے‘ آخر کار خاوند بھی نرم ہونے لگا‘ تین سال کے بعد آدمی نے پہلی بار بیوی کو بلایا‘ اس کے پاس بیٹھا‘ آہستہ آہستہ یہ مرد اپنی بیوی کا غلام بن گیا‘ دراصل یہ حسن اخلاق کا غلام بن گیا‘یہ ہر وقت نور بی بی نور بی بی کرتا رہتا‘ ان کے تین بچے بھی ہوئے ایک اچھی اور لمبی زندگی انہوں نے گزاری‘ جب یہ عورت فوت ہوئی تو یہ آدمی بچوں کی طرح بلک بلک کر رو دیا۔