ایک وڈیو بیان میں معروف مذہبی سکالر مولانا طارق جمیل نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اللہ کے جو دوست ہوتے ہیں وہ مر کر بھی زندہ رہتے ہیں اور جو دنیا میں بادشاہ اکثر گزرے ہیں ان کی قبروں پر کوئی ایک بندہ بھی فاتحہ نہیں پڑھتا ۔مولانا طارق جمیل نے کہا کہ ایک بار میں مغل بادشاہ ہمایوں کی قبر پر گیا ، مغلوں کےدستور کے مطابق اوپر ایک نمائشی قبر ہوتی تھی اور اصل قبر نیچے تہہ خانے میں ہوتی تھی تو میں نے گائیڈ سے کہا کہ مجھے اصل قبر کی طرفلے کر جاؤ تو جب میں وہاں پہنچا توایک تنگ سا راستہ تھا جس کے آگے ایک چھوٹا سا کمرہ تھا۔گائیڈ میرے آگے چل رہا تھا جس کے ہاتھ میں ٹارچ تھی۔
میں نے اس جیسا خوف منظر زندگی میں کبھی نہیں دیکھا، جب قبر پر ٹارچ پڑی تو میں نے دیکھا کہ گدھ کے برابر کی چمگادڑوں نے سارے کمرے پر قبضہ کیا ہوا تھا اور ان کے پر بہت بڑے بڑے تھے۔میں وہاں پر دس سیکنڈز نہیں کھڑا ہوا سکتا اور میں فاتحہ پڑھنی بھول گیااور وہاں سے بھاگ گیا کہ اپنی جان بچاؤں۔ میں وہاں کھڑا ہی نہیں ہو سکا۔ علاوہ ازیں مغل بادشاہوں میں صرف ایک شخص انڈیا کی اکثریتی برادری میں مقبولیت حاصل کرنے میں ناکام رہا اور اس شخص کا نام عالمگیر اورنگزیب تھا۔ انڈین افراد کے درمیان اورنگزیب کی تصویر ایک سخت گیر مذہبی ذہنیت والے بادشاہ کی ہے جو ہندوؤں سے نفرت کرتا تھا اور جس نے اپنے بڑے بھائی دارا شکوہ کو بھی اپنے سیاسی مفاد کے لیے نہیں بخشا۔اس نے اپنے معمر والد شاہجہاں کو ان کی زندگی کے آخری ساڑھے سات سال تک آگرہ کے قلعے میں قید رکھا۔پاکستان کے ایک ڈرامہ نگار شاہد ندیم نے لکھا ہے کہ ‘تقسیم ہند کے بیج اُسی وقت بو دیے گئے تھے جب اورنگزیب نے اپنے بھائی دارا کو شکست دی تھی۔’انڈیا کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے بھی سنہ 1946 میں شائع ہونے والی اپنی کتاب ‘ڈسکوری آف انڈیا’ میں اورنگزیب کو ایک مذہبی اور قدامت پسند شخص کے طور پر پیش کیا ہے۔