Monday November 25, 2024

شان امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ

حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ3شعبان بروز جمعرات کو اس دنیا میں ایسے گھرانے میں جلوہ افروز ہوئے جس گھرانے کے لئے اس دنیا کا وجود عمل میں لایا گیا یعنی ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری اور لاڈلی بیٹی حضرت فاطمہ الزہرارضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر مدینہ میں ہجرت کے چوتھے سال پیدا ہوئے۔حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے بڑے بھائی حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک سال چھوٹے تھے۔ولادت کی خوشخبری سن کر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور ان کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی اور اپنی زبان منہ میں دے دی۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مقدس لعاب دہن حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی غذا بنا،ساتویں روز آپ کا عقیقہ کیا گیا۔

آپ کی ولادت سے تمام خاندان میں خوشی ومسرت کا اظہار کیا گیا اور خوب دل کھول کر صدقہ خیرات کیا گیا ۔حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کنیت ابو عبداللہ تھی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو پیار اور شفقت اپنے ان جنت کے سرداروں پر نچھاور کی وہ نہ کسی اور نے کبھی کی اور نہ قیامت تک کوئی کر سکے گا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے غیر معمولی شفقت فرماتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزانہ اپنے ان حسین شہزادوں کو دیکھنے کے لئے تشریف لاتے تھے ۔حدیث مبارک میں ہے کہ جس نے ان دونوں سے (حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ)سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان سے عدادت کی اس نے میرے سے عدادت کی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن نماز پڑھ رہے تھے کہ سجدہ کے دوران حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کی پشت مبارک پر آگئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ میں طول دے دیا،یہاں تک کہ وہ خود اپنی مرضی سے پشت سے نہ اترے اور پھر سجدے سے سر اٹھایا۔ حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں شہزادوں (حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ)کو اپنے کاندھوں پر اُٹھایا ہوا تھا اور فرمارہے تھے(اے اللہ!میں ان سے محبت کرتا ہوں پس تو بھی ان سے محبت فرما۔ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے جیسے بڑے ہوتے گئے،جذبہ جانثاری میں روز افزوں اضافہ ہو تا گیا،حضرت عثما ن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں آپ جوان ہو چکے تھے۔

حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ سے بڑی شفقت سے پیش آتے تھے۔ان کے ہی دور خلافت میں سب سے پہلے میدان جہاد میں قدم رکھا۔حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خلاف بغاوت کے دوران جب باغیوں نے قصر خلافت کا محاصرہ کر لیا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ قصر خلافت کے دروازے پر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حفاظت کیلئے مامور ہو ئے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کوفہ کو دار لخلافہ بنایاتو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی مدینہ سے کوفہ تشریف لے آئے۔جنگ جمل میں اپنے والد کے ساتھ تھے۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے وقت آپ کوفے میں موجود تھے۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ قرآن مجید کے مطالب اور احادیث بیان فرما تے تھے،عبادت وریاضت بکثرت نوافل پڑھنا اور قیام الیل آپ کا عام معمول تھا۔ اکثر روز ہ رکھتے تھے۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے 25حج کئے۔ فضائل اخلاق کے اعتبار سے سیدنا حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ پیکر محاسن تھے۔عبادت وریاضت ان کا معمول تھا۔قائم الیل اور دائم الصوئم تھے۔فرض نمازوں کے علاوہ بکثرت نوافل پڑھتے تھے۔ان کے فرزند حضرت علی زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ وہ شب وروز میں ایک ایک ہزار نمازیں (نوافل)پڑھ ڈالتے تھے۔ روزے بکثرت رکھتے تھے اور سادہ غذا سے افطار فرماتے تھے۔رمضان المبارک میں کم سے کم ایک مرتبہ قرآن پاک ضرور ختم کرتے تھے۔حج بھی بکثرت کرتے تھے اور وہ بھی بالعموم پیادہ۔ سیدنا وسید شباب اہل جنتہ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا واقعہ شہادت نہ صرف اسلامی تاریخ کا ایک اہم واقعہ ،بلکہ پوری دنیا کی تاریخ میں بھی اس کو ایک خاص امتیاز حاصل ہے۔ اس میں ایک طرف ظلم وجور اور سنگ دلی اور بے حیائی ومحسن کشی کے ایسے ہولناک اور حیرت انگیز واقعات ہیں کہ انسان کو ان کا تصور بھی دشوار ہے اور دوسری طرف آل اطہار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چشم وچراغ اور ان کے70/72متعلقین کی چھوٹی سی جماعت کاباطل کے مقابلہ ہر جہاد اسراس پر ثابت قدمی اور قربانی اور جاں نثاری کے ایسا محیر العقول واقعات ہیں جن کی نظیر ملنا مشکل ہے۔ امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حق پر ثابت قدم رہتے ہوئے کس طرح فسق وفجور کا مقابلہ کیا اور اپنے تمام رفقاء کی قربانی دے دی اور اپنے بچوں تک کو قربا ن کر دیالیکن حق اور سچ پر قائم رہتے ہوئے اپنی بھی جان اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان کر دی اور شہادت کا وہ رتبہ ومرتبہ حاصل کیا کہ تا قیامت ان کی شہادت کو بھلایا نہ جا سکے گا اور ان کی شان بیان کی جاتی رہے گی۔

FOLLOW US