صحراۓ عرب کے بے آب وگیاہ بیابانوں میں ایک ماں اپنے شیر خوار بیٹے کے ساتھ حکم خداوندی کی تکمیل کے لۓ تنہا ہے ۔۔حضرت ابراہیم جو کہ خلیل اللہ بھی تھے اپنے رب کے حکم پر اپنی بیوی اور شیرخوار بیٹے کو جب اس صحرا میں چھوڑ کر جا رہے تھے تو ان کے پیش نظر صرف اللہ کی خوشنودی تھی ۔وہ نہیں جانتے تھے کہ وہ ایک ایسی سنت کی بنیاد
رکھنے جا رہے ہیں جس کی تکمیل رہتی دنیا تک کے ہر مسلمان پر واجب ہو جاۓ گی ۔مشکیزے میں پانی ختم ہونے کے بعد اپنے بیٹے کو پیاس سے بلکتا دیکھ کر ،ایک ماں نے اللہ سے شکوہ کرنے کے بجاۓ پانی کی تلاش میں صفا اور مروہ کی پہاڑیوں کے بیچ چکر کاٹنے شروع کر دیئے ۔ماں بیٹے کی یہ بے قراری ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرنے والے رب سے نہ دیکھی گئی اور اس نے حضرت جبرائیل کو حکم دیا کہ اپنی ایڑی اس مقام پر ماریں جہاں معصوم اسماعیل پیاس کی شدت سے ایڑیاں رگڑ رہا ہے ۔اللہ کی قدرت سے وہاں ایک چشمہ جاری ہو گیا جس کے ابلتے پانی کو دیکھ کر ماں بے اختیار پکار اٹھی زم زم یعنی رک جاؤ اور پھر اس پانی کو روکنے کی خاطر اس کے گرد مٹی سے ایک منڈیر سی بنا دی جس کے بارے میں حدیث نبوی ہے کہ اگر بی بی حاجرہ اس کے گرد منڈیر نہ بناتیں تو یہ کنواں ایک دریا کی صورت میں رہتی دنیا تک موجود رہتا ۔اس پانی میں ایسا اثر تھاکہ اس نے ماں بیٹے کو بھوک پیاس سے راحت دلائی آب زم زم کا یہ چشمہ آج تک اسی طرح جاری و ساری ہے حج اور عمرے کی نیت سے آنے والے افراد پاکیزگی کی نیت سے یہ پانی نہ صرف پیتے
ہیں بلکہ اپنے ساتھ اپنے ملکوں میں تحفے کے طور پر بھی لے جاتے ہیں ۔چار ہزار سال قبل جاری ہونے والے آب زم زم کے چشمے کے پانی کی ماہیت اور اجزا کا سراغ لگانے میں سائنسدان ناکام ہو گۓ ۔ان کے مطابق یہ پانی ایک مکمل غزائی ٹانک ہے ۔یہ بیک وقت بھوک اور پیاس دونوں کا خاتمہ کرتا ہے ۔اس کے ایک قطرے میں کئ بیماریوں سے شفا موجود ہے ۔ اگر اس پانی کا ایک قطرہ بھی عام پانی میں شامل کیا جاۓ تو اس کی تاثیر بھی آب زم زم کے پانی جیسی ہو جاتی ہے ۔آب زم زم کے پانی کی ری سائکلنگ کے بعد بھی اس کے اجزا اور ان کی تاثیر میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی ہے ۔کنوئیں کے پانی میں حشرات اور نباتات کی افزائش ایک قدرتی عمل ہے مگر آب زم زم کے کنوئیں اور پانی میں کسی قسم کے حشرات یا کائی وغیرہ نہیں جمتی جو اس کے پاک اور صاف ہونے کی ایک اہم دلیل ہے ۔چار ہزار سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود نہ تو اس کا پانی کم ہو رہا ہے اور نہ ہی اس کی ماہیت اور اس میں موجود معدنیات کی شرح میں کسی قسم کی تبدیلی واقع ہوئی ہے ۔ان تمام باتوں کو جاننے کے بعد ہم بے ساختہ کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ اور تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو چھٹلاؤگے