اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک ) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی قانون انصاف نے پنجابی سندھی پشتو اور بلو چی زبانوں کو بھی قومی درجہ دینے سے متعلقہ بل کی منظوری دینے کے ساتھ ننھی زینب کے قا تل کو سرعام پھا نسی دینے کی سفارش کر دی ۔ تفصیلا ت کے مطابق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کا اجلاس چئیرمین کمیٹی سینیٹر محمد جاوید عباسی کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں سینیٹر سلیم ضیاء ، سینیٹر مظفرعلی شاہ ، سینیٹر مرتضی وہاب ، سینیٹر سسی پلیجو،
سینیٹر مختار دھامرا نے شرکت کی ۔ اجلاس میں سینیٹر مختاردھامرا، اور سسی پلیجوکی جانب سے علاقائی زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دینے کے حوالے سے بل زیر غور آیا۔ بل کے حوالے سے مظفرعلی شاہ نے کہاکہ پاکستان کے چاروں صوبوں کو قومی زبان کا درجہ دیا جائے سندھ میں عوامی رائے کے مطابق سندھی زبان ایک ایڈوانس زبان ہے۔ اسی طرح باقی تین صوبوں کا بھی یہی مطالبہ ہے کہ ان کی اہم علاقائی زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دیا جائے۔ انہوں نے کہاکہ 1977کے آرٹیکل 250میں ان علاقائی زبانوں کو ملک کی بڑی زبانوں کا درجہ دیا گیا ہے۔ کنیڈا میں اس وقت بھی انگریزی اور فرنچ دونوں زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دیا ہو اہے لیکن ان کی قومی سلامتی کوکوئی خطرہ لاحق نہیں ہوا۔ آئین ایک کاغز کا ٹکڑا نہیں ہے۔ بلکہ وقت کے ساتھ اس میں تبدیلی ہونی چاہیے۔ سینیٹر سسی پلیجو نے کہاکہ سندھی ، پنجابی ،پشتو، اور بلوچی ہماری علاقائی زبانیں ہیں ۔ یہ فیڈرل کی پہچان ہیں جب تک کلچرل اور زبان کو اہمیت نہیں دی جائے گی اسوقت تک وفاق مضبوط نہیں ہوگا۔ سندگی اردو سے بھی قدیم زبان ہے جو عرصہ پانچ ہزار سال قدیم زبان ہے۔ وزارت قانون و انصاف کے سیکرٹری ملک حاکم خان نے کہاکہ وزارت قانون علاقائی زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کرتی ۔ ابھی تک اردو ہی کو قومی زبان کا درجہ نہیں دیا گیا
ملک میں انگریزی کو قومی زبان کا درجہ دیا گیا۔ چاروں صوبوں کی جانب سے کوئی مطالبہ بھی نہیں آیاکوئی معنی نہیں رکھتا کہ کہ علاقائی زبانوں کو قومی درجہ دیا جائے۔ نیشنل لینگوئیج کمشن بنائے جائے گا۔ وہ فیصلہ کرئے گی کہ علاقائی زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دیا جائے گا کہ نہیں ۔ سینیٹر سلیم ضیاء نے کہا کہ قوانین موجود ہیں اور سر عام پھانسی کے متعلق جب تک سخت سزائیں نہیں ہوں گی اس وقت تک لوگ فخریہ جرائم کرتے رہیں گے ۔ سینیٹر مرتضی وہاب نے کہاکہ ملک میں جب تک جزا اور سزا کا فقدان رہے گا اس وقت تک معاملات بہتر نہیں ہوسکتے۔ جب سخت سزائیں ملیں گی تو لوگ قوانین پر عمل درآمد تب ہی ہوگا۔