کراچی(آن لائن)سانحہ بلدیہ کیس میں فیکٹری مالکان نے مرکزی ملزمان کو شناخت کرتے ہوئے انتہائی سنسی خیز انکشافات کئے ہیں۔تفصیلات کے مطابق کراچی کی انسداد دہشتگردی کی خصوصی عدالت میں سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس کی سماعت ہوئی۔ دبئی میں پاکستان سفارت خانے سے فیکٹری مالک ارشد بھائیلہ کا اسکائپ کے ذریعے بیان ریکارڈ کیا گیا۔ انسداد دہشت گردی عدالت میں سانحہ بلدیہ ٹاون کے فیکٹری مالک نے بیان دیا ہے کہ ہمیں متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم ) کو کروڑوں روپے بھتہ دینا کا کہا گیا تھا۔انہوں نے رحمان بھولا، زبیر چریا، روف صدیقی سمیت دیگر ملزمان کو شناخت
کرلیا تاہم دو ملزمان کو شناخت نہیں کیا،ارشد بھائیلہ نے سنسنی خیز انکشافات کرتے ہوئے بتایا کہ منصور نے 2004 میں فیکٹری جوائن کی اور اسی سال ایم کیو ایم کا بھتہ بھی شروع ہوگیا، ایم کیو ایم سے معاملات منصور نے طے کرائے تھے، ایم کیو ایم کو 15 سے 25 لاکھ روپے بھتہ جاتا تھا، منصورنے کہا اگر کراچی میں کام کرنا ہے تو ایم کیو ایم سے بنا کر رکھنی ہوگی، 2005 میں فیکٹری ملازم جنرل منیجر منصور نے زبیر عرف چریا کو فیکٹری فینسنگ ڈپارٹمنٹ میں بھرتی کیا، زبیر چریا بلدیہ سیکٹر انچارج اصغر بیگ کے چھوٹے بھائی کا گہرا دوست تھا۔انہوں نے بتایا کہ جنرل منیجر منصور نے ایم کیوایم کو 15 لاکھ روپے ماہانہ دینے پر رضا مند کیا جبکہ آتشزدگی کے بعد ایم کیو ایم سیکٹر اعجاز بیگ کو بھتہ دیا۔اپنے بیان میں انہوں نے بتایا کہ 2012 میں منصور کے آفس میں شاہد بھائیلہ سے سیکٹر انچارج ملا اور کہا کہ اب ایم کیو ایم کو کروڑوں روپے بھتہ دینا پڑے گا۔بیان کے مطابق 12 جولائی 2012 کو اصغر بیگ کی جگہ رحمٰن بھولا کو بلدیہ کا سیکٹر انچارج لگایا گیا، جس کے بعد ایک روز ہم جب فیکٹری سے نکل رہے تھے تو رحمٰن بھولا نے روکا اور دھمکی دی کہ بھتے کے لیے حماد صدیقی سے رابطہ کرو۔ انہوں نے بتایا کہ رحمٰن بھولا نے حماد صدیقی کی ایما پر 25 کروڑ روپے بھتہ اور فیکٹری میں حصہ مانگا، یہ سن کر ہم حیران رہ گئے۔فیکٹری مالک کے مطابق ہم نے منصور کو بھتے کے معاملات دیکھنے کے لیے کہا اور انہیں کہا کہ ایک کروڑ روپے دے کر معاملہ نمٹایا جائے۔انہوں نے بتایا کہ ہمیں مسلسل ایم کیو ایم کی جانب سے تنگ کیا جانے لگا، جس پر ہم نے کاروبار بنگلہ دیش منتقل کرنے کے لیے وہاں کا دورہ کیا جبکہ ہم فیکٹری جانے والے راستے اور گاڑیاں بھی تبدیل
کرتے رہتے تھے۔عدالت میں بیان دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 11 ستمبر 2012 کو پہلے گودام میں آگ لگائی گئی، فائر بریگیڈ واقعہ کے بعد 60 سے 90 منٹ کے بعد پہنچی۔ لیکن ان کے پاس پانی نہیں تھا اور االات بھی نہیں تھے، میں نے فائر بریگیڈ والوں کو اپنے ہائیڈرنٹ سے پانی کی پیش کش کی جسے انہوں نے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اپنا کام کرنے دو۔مالک نے بتایا کہ اس وقت کے چیف سی پی ایل سی احمد چنائے نے رشتہ دار کے ذریعے پیغام بھیجا، فیکٹری میں مزید رکنا مناسب نہیں ہے تو ہم رشتہ داروں کے ہاں چلے گئے، ہمارے جانے کے بعد ایم کیو ایم کارکنوں نے فیکٹری کا کنٹرول سنبھال لیا اور کسی کو اندر نہیں جانے دیا گیا۔بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بعد میں ہمیں ملازم نے بتایا کہ جب اقگ لگی تو زبیر چریا 4 سے 5 اجنبی افراد کے ساتھ کینٹن میں بیٹھ کر چرس پی رہا تھا، خیال تھا کہ زبیر چریا بھی فیکٹری میں اْگ لگانے میں ملوث ہے۔انہوں نے بتایا کہ 12 ستمبر کو واقعہ کا مقدمہ ایم کیو ایم اور روف صدیقی کے دباو پر ہمارے خلاف ہی درج کردیا گیا، 24 گھنٹوں میں ہمارے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ ( ای سی ایل ) میں شامل کردیے گئے، ہمیں ولن اور اصلی ملزم کے طور پر پیش کیا گیا، ہم نے لاڑکانہ سے ضمانت حاصل کی اور پولیس کی تفتیش میں شامل ہوئے۔ارشد بھائیلہ نے کہا کہ ہم تین سال تک متاثرین کو راشن دیتے رہے اور مالی امداد بھی کی کمیشن بنا تو ہم نے فرانسک کی ڈیمانڈ کی جسے مسترد کردیا گیا، اس وقت کے صوبائی وزیر صنعت و تجارت روف صدیقی نے ہمارے ہی خلاف مقدمہ درج کروایا، ہم نے اپنے کیس کے لئے نعمت اللہ رندھاوا ایڈوکیٹ کی خدمات حاصل کی تھیں جو چند تاریخوں پر پیش ہوئے پھر انہیں بھی قتل کردیا گیا۔ارشد بھائیلہ نے بیان دیا کہ جون 2013 میں ہمارے انکل کو سائٹ ایریا سے اغواء کرلیا گیا، سی پی ایل سی کے سابق چیف احمد چنائے نے ہمیں اغواء کاروں سے معاملات طے کرنے کا کہا، ہمارے انکل کو بھاری تاوان وصول کرنے کے بعد رہا کیا۔ ارشد بھائیلہ نے کہا کہ 13 ستمبر کو گورنر سندھ عشرت العباد نے احمد چنائے کے ذریعے پیغام بھجوایا کہ ہم گورنر ہاوس میں خود کو پولیس کے حوالے کردیں، گورنر نے کہا کہ اگر ہم ایم کیو ایم کے پلیٹ فارم سے متاثرین کو معاوضہ دیں تو تمام چیزیں ٹھیک ہوجائیں گی، معاملہ ٹھنڈا کرنا ہے تو ہر مرنے والے کے اہلخانہ کے لیئے 4 لاکھ روپے ایم کیو ایم کے پلیٹ فارم پر جمع کرادیں۔ارشد بھائیلہ نے مزید بتایا کہ سابق
ایم این اے سلمان مجاہد بلوچ نے جیل میں ملاقات کی اور کہا کہ مجھے وکیل کرلیں میں معاملہ ٹھنڈا کروادوں گا، ہم جب ضمانت پر رہا ہوئے تو ایم کیو ایم کی جانب سے ہم پر سخت دباو? ڈالا گیا، ہم نے ایم کیو ایم کے ذریعے معاملات طے کرنے کا فیصلہ کیا اور ملزم علی قادری کے اکاونٹ میں پانچ کروڑ 98 لاکھ روپے جمع کرائے۔واضح رہیکہ بلدیہ کی ٹیکسٹائل فیکڑی میں ستمبر 2012 میں آتشزدگی کا واقعہ پیش آیا تھا جس میں 250 سے زائد افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔بلدیہ فیکٹری کیس میں ڈرامائی موڑ فروری 2015 میں اس وقت آیا جب سندھ ہائی کورٹ میں جمع کرائی گئی جوائنٹ انویسٹی گیشن رپورٹ میں رینجرز کی جانب سے انکشاف کیا گیا کہ فیکٹری میں آگ لگانے میں ایم کیو ایم ملوث ہے۔دسمبر 2016 میں بلدیہ فیکٹری کیس میں ملوث ایک اور ملزم رحمان عرف بھولا کو انٹرپول کی مدد سے بنکاک سے گرفتار کرکے کراچی منتقل کیا گیا تھا۔عبدالرحمان بھولا نے اپنے بیان میں اعتراف کیا تھا کہ اس نے حماد صدیقی کے کہنے پر ہی بلدیہ فیکٹری میں آگ لگائی تھی۔