Tuesday November 26, 2024

روس نے ہمارے موقف کی حمایت کر دی،اب اگرامریکہ معاہدے سے پیچھے ہٹا تو کیا ہوگا؟طالبان ترجمان سہیل شاہین نے دھماکہ خیز اعلان کردیا

اسلام آباد (این این آئی) افغان طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے کہاہے کہ روس نے طالبان کی افغان مسئلہ کے سیاسی اور پر امن حل کیلئے طالبان کے موقف کی حمایت کی ہے۔ ر وس کے چار روزہ دورے کے بعد”این این آئی“ سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے طالبان ترجمان نے کہاکہ طالبان دیگر ممالک کو بھی اپنا موقف بیان کر نا چاہتا ہے تاہم روس کے دورے کے بعد فی الحال کسی اورملک کے دورے کر نے کا شیڈول طے نہیں ہے ہم چاہتے ہیں کہ دنیا کے سامنے اپنے موقف کی تشریح کریں

کہ ہم مسئلے کا سیاسی حل چاہتے ہیں، امریکہ کو اپنے موقف پر نظر ثانی کر نا پڑے گی ہم نے ایک سال میں امریکی مذاکراتی ٹیم کے ساتھ جو بھی طے کیا ہے ہم اس پر قائم ہیں اور امریکی حکومت کو فیصلہ کر نا ہے کہ مذاکرات پرآنا ہے یا طاقت کا آپشن استعمال کر ناچاہتا ہے۔امریکہ نے اٹھارہ سال تک طاقت کااستعمال کیا ہے لیکن انہیں کیا ہاتھ آیا؟ جن امریکیوں نے ہم سے تقریباً ایک سال مذاکرات کئے ہیں وہ اپنے سر پر نہیں بلکہ امریکی حکومت اور ان کے اداروں کے نمائندوں کی حیثیت سے ہم سے مذاکرات کرتے رہے اور بالآخر معاہدے کے متن پر متفق ہوگئے تھے اور ایک ہفتے میں امن معاہدے کا اعلان بھی ہونا تھا لیکن اچانک صدر ٹرمپ نے ٹوئٹ کے ذریعے ایک سال کے مذاکرات کو ختم کر دیا۔قبل ازیں ”این این آئی“خصوصی گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ ہم بھی امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ کے مذاکرات کو معطل کر نے کے بیان پر حیران ہوئے ہیں،امریکہ کے ساتھ مذاکرات کامسودہ بھی مکمل تھا۔انہوں نے کہاکہ دونوں ٹیموں نے دن رات اس پرکام کیا اور ہر شق او ر آرٹیکل پر غور کیا اس کے بعد مسودہ فائنل ہوگیا جس کی ایک کاپی قطر کی حکومت کو دی گئی ہے انہوں نے بتایاکہ مسودے کی ایک کاپی ہمارے پاس اور ایک کاپی امریکی ٹیم کے پاس ہے۔انہوں نے کہاکہ اب قطری حکومت کی جانب سے ایک تقریب میں اعلان کر نا باقی تھا۔انہوں نے کہاکہ اس موقع پر امریکی صدر کی جانب سے مذاکرات معطل کر نے کااعلان ہم سب کیلئے حیرانی کا باعث تھا۔ انہوں نے کہاکہ امریکی ٹیم میں شامل زلمے خلیل زاد اور امریکی جنرل ملر نے

ملابرادر کے ساتھ ملاقات کی، اس ملاقات میں امریکی ٹیم کی طرف سے کوئی تحفظات سامنے نہیں آئے بلکہ امریکی حکام مذاکرات کے مکمل ہونے اور مجوزہ معاہدے پر بہت خوش تھے۔ایک سوال پرسہیل شاہین نے کہاکہ اگر امریکی صدر کابل میں حملے اور اس میں امریکی فوجی کے مارے جانے کا بہانہ بناتے ہیں تو ہم بھی پوچھتے ہیں کہ بدخشاں، قندوز دوسرے صوبوں میں انہوں نے کیوں حملے کئے؟انہوں نے کہاکہ دونوں اطراف سے مذاکرات مکمل ہو چکے تھے اور معاہدے پر دستخط ہونے باقی تھے تو اس موقع پر کیوں حملے جاری رہے؟ڈرون حملے شروع ہوگئے تھے جس کے بعد طالبان نے بھی رد عمل کے طورپر کچھ حملے کئے۔ ایک سوال پر انہوں نے کہاکہ جب معاہدے پر دستخط ہو جاتے تو پھر سیز فائر ہو جاتا اور جب معاہدے پر دستخط نہیں ہوئے تو سیز فائر نہیں تھی اور یہ دونوں طرف سے نہیں تھااور ہم سمجھتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا بہانہ معقول نہیں ہے۔ایک سوال پر انہوں نے کہاکہ ہمارا موقف بالکل واضح ہے کہ ایگری منٹ مکمل ہو چکا ہے،اس میں سیز فائرسمیت ساری چیزیں شامل ہیں،ہم نے جو کمٹمنٹ کی ہے اس پر قائم ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ہم بھی چاہتے ہیں کہ افغانستان میں لڑائی ختم ہو اور امن قائم ہو جائے امریکہ چاہیے کہ وہ معاہدے پر دستخط کرے اگر امریکہ معاہدے سے پیچھے ہٹے گا تو افغانستان میں ہونے والی جنگ کی ذمہ داری امریکہ پر عائد ہوگی۔

FOLLOW US