گھوٹکی (این این آئی)گھوٹکی میں مبینہ طور پر توہین مذہب کے واقعے کے بعد حالات کشیدہ ہوگئے جہاں شہریوں کی بڑی تعداد کی جانب سے احتجاج کیا گیا اور مقدمہ بھی درج کرادیا گیا۔میڈیا رپورٹ کے مطابق پولیس نے سندھ پبلک اسکول کے ایک طالب علم کے والد کی شکایت پر اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے اسکول پرنسپل کے خلاف فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) درج کرادی۔ اسکول پرنسپل کے خلاف ایف آئی آر توہین رسالت سے تعلق آرٹیکل 295 کے تحت درج کرادی گئی ہے، مقدمے کے اندراج کے بعد علاقے میں احتجاج کیا گیا اور حالات خراب
ہوگئے۔پولیس سے مقامی افراد نے مطالبہ کیا کہ وہ اسکول پرنسپل کو گرفتار کریں جبکہ علاقے میں شٹر ڈاؤن ہڑتال کا اعلان کردیا گیا اور مظاہرے بھی کیے گئے جس کی ویڈیو سوشل میڈیا میں بھی جاری کردی گئی جہاں دیکھا گیا کہ مظاہرین ایک مندر پر چڑھائی کی کوشش کررہے ہیں اور اسکول کی عمارت کو بھی نقصان پہنچا رہے تھے۔گھوٹکی کے سنیئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) فرخ لنجر نے مقامی صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پولیس علاقے میں امن وامان کو برقرار رکھنے کی کوشش کررہی ہے۔وزیر اعلیٰ سندھ کے معاون خصوصی برائے انسانی حقوق ایڈووکیٹ ویرجی کولہی کا کہنا تھا کہ مزید کسی نقصان یا کشیدگی سے بچنے کے لیے معاملے کو سنجیدگی سے نمٹایا جارہا ہے۔ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے واقعے کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سوشل میڈیا میں مظاہرین کی ایک ویڈیو جاری کی۔سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر میں ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے کہا کہ گھوٹکی میں توہین رسالت کے الزامات اور شہریوں کے احتجاج کی خطرناک رپورٹس موصول ہورہی ہیں۔سوشل میڈیا میں گھوٹکی سے ویڈیو جاری کرنے والے افراد نے پاکستان پیپلزپارٹی کی مقامی انتظامیہ اور ایڈیشنل آئی جی جمیل احمد سے صورت حال کو کنٹرول کرنے کا مطالبہ کیا۔ ایڈیشنل آئی جی جمیل احمد نے ایک ٹویٹ کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہم سنجیدہ صورت حال سے تحمل، غیرجانب داری اور پیشہ وارانہ انداز سے نمٹ رہے ہیں۔انہوں نے کہاکہ معاشرے کے ماڈریٹ اور تعلیم یافتہ افراد انصاف اور گھوٹکی میں امن کو برقار رکھنے کے لیے ہماری کوششوں کی حمایت کریں۔رپورٹس کے مطابق گھوٹکی کے قریبی علاقوں میرپور ماتھیلو اور عادلپور میں بھی مظاہرے کیے گئے جہاں مظاہرین نے سڑک بلاک کی اور پولیس سے اسکول پرنسپل کی گرفتاری کا مطالبہ کیا۔